نور مقدم قتل کیس; والدین کا کوئی بیان نہیں، پولیس نے چالاکی کی

قتل کے بعد تھراپی ورکس والوں کوموقع پر بھجوایا گیا تو اس میں اعانت جرم کہاں ہے؟ وکیل خواجہ حارث کے دلائل

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 16 ستمبر 2021 16:39

نور مقدم قتل کیس; والدین کا کوئی بیان نہیں، پولیس نے چالاکی کی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 16 ستمبر 2021ء) : نور مقدم قتل کیس میں وکیل کے دلائل آج بھی جاری رہے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکور ٹ میں نور مقدم قتل کیس ،ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ وکیل خواجہ حارث نے چالان سے ملزم ظاہر جعفر کا اعترافی بیان پڑھا ۔ دوران سماعت خواجہ حارث نے کہا کہ پولیس چالان کے مطابق ظاہر جعفر اپنے والدین سے رابطے میں تھا، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی نے پولیس کو اپنے بیان میں کیا کہا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ میں پولیس نے دونوں ملزمان سے کچھ پوچھا ہی نہیں،تھراپی ورکس کو 7 بج کر 5 منٹ پر ذاکر جعفر نے کال کی، عدالت نے کہا کہ اگر تھراپی ورکس کو کال کی گئی تو واقعہ ساڑھے 6 سے 7 کے روران ہو سکتا ہے،وکیل نے کہا کہ ذاکر جعفر نے پولیس کو کال کی اورکہا ظاہر جعفر کی حالت ٹھیک نہیں اسے لے جائیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پولیس ظاہر جعفر کے بیان پر انحصار کر رہی ہے ،ریمانڈ میں لینے کے بعد ان کے موکل سے کوئی بیان نہیں لیا گیا،اب پتہ نہیں پولیس نے اپنے ریکارڈ پر کیا لکھا ہے۔ میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس چالان کے مطابق اگر ذاکر جعفر قتل سے پہلے پولیس کو بتا دیتا تو نور مقدم کی جان بچ جاتی۔ انہوں نے کہا کہ تھیراپی ورکس کو کی گئی کالز کے دورانیے کو لے کر صرف مفروضوں پر کیس بنا کر گرفتاری ہوئی۔

پولیس چالان کے مطابق ظاہر جعفر کے والدین نے واقعے میں اعانت کی ہے، اگر پولیس کی اس بات کو مانا بھی جائے، پھر بھی جو دفعات لگائی گئیں وہ نہیں بنتی۔ جسٹس عامر فاروق نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دیکھنا کہ موکلین کا کیس میں کیا کردار ہے؟ اگر تھراپی ورکس کو کال کی گئی تو واقعہ ساڑھے 6 سے 7 کے دوران ہو سکتا ہے،برطانیہ میں سسٹم ہے جہاں 20،20 سال بعد کیس کا فیصلہ سنایا گیا ہمارے یہاں تو شواہد محفوظ کرنے کا کوئی سسٹم نہیں، وکیل نے کہا کہ چالان کے ساتھ ریکارڈ میں نہیں لکھا گیا کہ وقوعہ کی اطلاع پولیس کو کس نے دی ؟ عدالت نے استفسار کیا کہ موکلین نے7 بجکر 5 منٹ پر تھراپی ورکس کو کال کی اور ظاہر جعفر کو ریسکیو کا کہا؟ وکیل نے عدالت میں جواب دیا کہ ظاہر جعفر کی ذہنی حالت کے حوالے سے ہسٹری موجود ہے، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا تھراپی ورکس کے 5 افراد بھی ملزم ہیں؟ جس پر وکیل نے عدالت میں بیان دیا کہ تھراپی ورکس کے ملازمین پر بھی شواہد مٹانے کا الزام ہے، پہلے تو یہ معلوم ہی نہیں کہ ظاہر جعفر نے والدین کو قتل کا بتایا تھا یا نہیں، اگر یہ معلوم بھی ہو اور تھراپی ورکس والے ثبوت مٹانے گئے ہوں پھر بھی یہ کیس نہیں بنتا۔

پراسیکیوشن کے مطابق والد نے لاش ٹھکانے لگانے تھراپی ورکس والوں کو بھیجا۔ بغیر کسی ثبوت کے ایسی بات خود سے ہی کیسے کہی جا سکتی ہے؟ وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس چالان میں ہی لکھا ہے کہ ظاہر جعفر نے قتل کے بعد والدین کو آگاہ کیا اور انہوں نے تھراپی ورکس والوں کو بھیجا، قتل کے بعد وقوعہ کی اعانت نہیں ہو سکتی۔ تھراپی ورکس کے امجد پر زخمی ہونے کی وجہ چھپانے پر اعانت کا الزام لگایا گیا۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے مقدمہ میں یک طرفہ تفتیش کی، تفتیش کے عمل میں گرے ایریاز ہیں، پراسیکیوشن کا کیس ہے کہ ذاکر جعفر نے تھراپی ورکس والوں کو لاش ٹھکانے لگانے بھیجا۔ اگر انہیں قتل کے بعد موقع پر بھجوایا گیا تو اس میں اعانت جرم کہاں ہے؟ دلائل کے دوران خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا بھی حوالہ دیا ۔

جسٹس عامر فاروق نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دیکھنا کہ موکلین کا کیس میں کیا کردار ہے؟ وکیل نے عدالت میں کہا کہ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی پر اس الزام میں بھی قابل ضمانت دفعات لگتی ہیں،چالان میں ہے کہ ظاہر جعفر نے قتل کے بعد والدین کو آگاہ کیا،مالی اور چوکیدار پر نور مقدم کو گھر سے باہر جانے سے روکنے کا الزام ہے،شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہوتا ہے، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کالزپر شواہد مٹانے کا کہا گیا یا نہیں یہ تو پولیس کو ثابت کرنا ہے،ہمارے یہاں تفتیش کا عمل مؤثر نہیں ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ شواہد کیا ہیں، وہ وکیل مدعی بتائیں گے، مزید سماعت کل ہو گی اور خواجہ حارث دلائل جاری رکھیں گے۔