ویلیوایڈیشن نہ ہونے کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ میں کھجور کی ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر

جمعہ 15 اکتوبر 2021 12:27

ویلیوایڈیشن نہ ہونے کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ میں کھجور کی ایکسپورٹ ..
مکوآنہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اکتوبر2021ء) اگرچہ پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے کھجور پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے مگر ویلیوایڈیشن نہ ہونے کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ میں کھجور کی ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے اگر جدید زرعی رحجانات اور ویلیوایڈیشن کو ملکی سطح پر فروغ دیا جائے تو نہ صرف کھجور کی پیداواریت میں خودکفالت حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کا زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔

اس امر کا اظہار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے پہلے قومی کھجور میلے اور سٹیک ہولڈرز اجلاس سے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب کے دوران کیا۔ میلے اور اجلاس کا انعقاد زرعی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹیکلچرل سائنسز نے کیا۔

(جاری ہے)

جس میں ملک کے تمام صوبوں سے کھجور کے کاشتکاروں نے شرکت کی۔ نمائش میں پاکستان کے طول و ارض میں کاشت کی جانے والی پچاس سے زیادہ کھجور کی اقسام شرکائ کی دلچسپی کا باعث بنی رہیں۔

اس تقریب کے مہمان اعزاز سندھ سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند کاشتکار غلام قاسم جسکانی تھے جبکہ ڈین کلیہ زراعت ڈاکٹر امان اللہ ملک، ڈاکٹر جعفر جسکانی اور ڈاکٹر ثمرعباس نقوی نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ ویلیوایڈیشن اور جدید طریقہ کاشت کو اپناتے ہوئے ملکی سطح پر کھجور کی پیداواریت کو بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ کر کے زرعی معیشت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں کھجور کی پیداوار تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ ٹن سالانہ ہے تاہم روایتی طریقوں کی وجہ سے ایکسپورٹ صرف چھوہارے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ کاشتکاروں کو ویلیوایڈیشن، جدید ٹیکنالوجی اور پیسٹ مینجمنٹ سے روشناس کراتے ہوئے نہ صرف معیشت کو بہتر کیا جا سکتا ہے بلکہ پیداواریت میں اضافے اور فوڈ سیکورٹی کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کھجور کی بہتر اقسام کی کاشت کو فروغ دینے کے لئے ٹشوکلچر میں تحقیق و تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح پر کمرشل ٹشوکلچر کا نظام تشکیل دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مصر، سعودی عرب، ایران، عراق کا شمار دنیا کے کھجور پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ غلام قاسم جسکانی نے کہا کہ کھجور غذائیت کا منبع ہوتے ہوئے اپنے اندر پروٹین، چکنائی، نمکیات، نشاستہ اور حیاتین رکھتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تین سو سے زائد کھجور کی اقسام پائی جاتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ مختلف عوامل کی وجہ سے یہ تعداد پچاس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جس کے لئے کمرشل ٹشوکلچر کو فروغ دیتے ہوئے نایاب ہونے والی اور پاکستان کے ماحول سے ہم آہنگ غیرملکی اقسام کی کاشت پر سائنسی بنیادوں پر کام کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے زرعی یونیورسٹی کی کاوشیں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس دانش گاہ کی بدولت دیہی ترقی، پیداواریت میں اضافے اور فوڈ سیکورٹی جیسے چیلنجز سے نبردآزما ہوتے ہوئے زرعی ترقی کی بنیاد رکھی۔

ڈاکٹر امان اللہ ملک نے کہا کہ اسلامی معاشرے میں کھجور کو خاص مقام حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے بنی نوع انسان پر ان گنت احسانات میں کھجور ایک بہت بڑی نعمت ہے جسے غذائیت اور ادویاتی نکتہ نظر سے انفرادی اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کھجور کا زیرکاشت رقبہ 91145ہیکٹر ہے جس میں سے پنجاب کا حصہ صرف 5781ہیکٹر پر مشتمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کھجور کی پیداوار کے حساب سندھ سرفہرست ہے جبکہ بلوچستان دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی کاشتکاروں کی استعدادکار بڑھانے کے لئے تمام کاوشیں بروئے کار لا رہی ہے اور یہ میلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام الہامی مذاہب میں کھجور کو تقدس حاصل ہے اور یہ پیغمبروں کا پسندیدہ پھل رہا ہے۔

ڈاکٹر جعفر جسکانی نے کہا کہ ہارٹیکلچرل سائنسز کے سائنسدان باغبانوں کی رہنمائی اور تحقیق و تدریس کے لئے دن رات کوشاں ہیں جس سے جدید علوم کی حامل افرادی قوت، ہارٹیکلچر کے مسائل کے حل اور بہتری کے لئے سائنسی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویلیوایڈیشن کی بدولت پاکستانی کاشتکار بین الاقوامی منڈی میں اپنا حصہ لینے کے لئے کوششیں کرنی چاہئیں تاکہ نچلی سطح پر غربت کے خاتمے اور غذائیت میں کمی جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکے۔

ڈاکٹر ثمرعباس نقوی نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی نے 2008ئ میں کھجور کی ترویج اور تحقیق کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کیا تھا تاکہ اس کی بدولت زرعی کامیابیاں سمیٹتے ہوئے ایک نئے ترقی کے سفر کا آغاز کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہارٹیکلچر میں کھجور کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میلے کا مقصد کاشتکاروں، زرعی سائنسدانوں، پالیسی میکرز کو پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے لائحہ عمل تیار کر سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کھجور نمائش میں پچاس سے زائد اقسام کی کھجوریں دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں کھجور کو پانچ ہزار سال سے کاشت کیا جا رہا ہے اور اس کی بہترین اقسام سعودی عرب، عراق، مصر اور ایران وغیرہ میں کاشت کی جا رہی ہیں