حلقہء فکروفن کا مولانا ظفر علی خان کو خراج عقیدت

Urooj Asghar عروج اصغر منگل 7 دسمبر 2021 14:00

الریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 07 دسمبر2021ء) سعودی عرب میں اردو ادب کے فروغ کے لئے کئی تنظیمیں میدان عمل میں ہیں اور مختلف اقسام کی تقاریب منعقد ہوتی رہتی ہیں، کہیں مشاعرہ کا اہتمام ہوتا ہے کہیں کسی قومی ادیب / شاعر کا دن منا کر اسے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور کبھی پاکستان سے تشریف لانے والے کسی ادیب شاعر کے اعزاز میں پروگرام منعقد ہو رہا ہوتا ہے، ان تنظیموں میں نمایاں ترین اور سرگرم ادبی تنظیم حلقہء فکروفن ہے جو اردو ادب کی ترویج و ترقی کے لئے پیش پیش ھے.



گذشتہ روز حلقہء فکروفن نے معروف شاعر، ادیب اور بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کی برسی کے موقع پر ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کاشانہءادب میں تقریب منعقد کی گئی،  جس میں شاعر ، صحافی اور شعر و ادب کے شائقین اور معززین شہر نے شرکت کی.

مہمانِ خصوصی معروف صحافی اور  پاک میڈیا فورم سعودی عرب کے چیئرمین جناب الیاس رحیم تھے،  صدارت حلقہء فکروفن کے صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے کی جبکہ نظامت کے فرائض حلقہء فکروفن کے سیکرٹری جنرل وقار نسیم وامق نے نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دئیے.



نشست کا آغاز ڈاکٹر محمود احمد باجوہ کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، قلب عباس نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت خوش الحانی کے ساتھ پیش کی، میزبان حلقہء فکرو فن کے صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا.

پروگرام کی غرض و غایت اور سپاسنامہ حلقہء فکروفن کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمود احمد باجوہ نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ظفر علی خان غیر معمولی قابلیت کے حامل خطیب اور اعلیٰ معیار کے انشائیہ پرداز تھے، صحافت کی شاندار قابلیت کے ساتھ ساتھ مولانا ظفر علی خان شاعری کے بے مثال تحفہ سے بھی مالا مال تھے، ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں.



شاعرِ فکروفن قلب عباس نے اپنا کلام پیش کیا جبکہ طلحہ ظہیر نے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حالاتِ حاضرہ پر ان کے شہپارے منظوم اداریوں کی حیثیت رکھتے ہیں اس صنف کے بادشاہ وہی تھے۔

(جاری ہے)



 تازہ دم ابھرتے ہوئے شاعر ظفر اقبال نے مولانا ظفر علی خان کی صحافت کے طور پر انکی خدمات اور پاک و ہند کے مسلمانوں کو بیدار کرنے میں انکے رول پر روشنی ڈالی اور اس پر انکو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور اپنا تازہ کلام بھی سنایا جسے سامعین نے بے حد پسند کیا، ان کے کلام سے انتخاب پیشِ خدمت ھے،
اہلِ ذوق سے روشن ہوتی ہے نئی عندلیب اکثر
فکر و فن جنم دیتا ہے اک نئی تہذیب اکثر


حلقہ فکروفن کے ناظم الامور ڈاکٹر طارق عزیز نے اپنا مقالہ اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا جس میں انہوں نے مولانا ظفر علی خان کی بطور صحافی ، سیاسی لیڈر اور بہترین شاعر ، انکی زندگی کے مختلف گوشوں کو افشاں کیا، ڈاکٹر طارق نے کہا کہ وہ نامور خطیب ، بے باک صحافی اور نڈر سیاست دان تھے انہوں نے زمیندار اخبار کے ذریعے اس وقت برطانوی سامراج کو للکارا جب اس کا اقتدار نصف النہار پر تھا، انہوں نے مولانا ظفر علی خان کا کلام پیش کیا اور اپنی شاعری سے نظم پیش کر کے بہت داد وصول کی.



نظامت کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ وقار نسیم وامق نے جب اپنا کلام پیش کیا تو سامعین خوشی سے جھوم اٹھے اور زبردست داد سے انہیں نوازا. ان کا کلام قارئین کی نذر،
سمندر کے بھنور سے آشنا تھا
تمہارے ساتھ بھی تو ناخدا تھا

بنامِ تیرگی روشن دیا تھا
مسلسل آندھیوں سے لڑ رہا تھا

حلقہء فکروفن کے سیکریٹری فنانس اور انقلابی شاعر سرور خان انقلابی نے مولانا ظفر علی خان کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ طرابلس و بلقان کی لڑائیوں کی آگ مولانا ظفرؔ علی خان کے دل میں بجلی بن کر گری تو اُنھوں نے جرأت اور مردانگی کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان میں سب سے پہلے انگریزی حکومت کے اقتدار کو چیلنج دے کر مسلمانوں کے دلوں میں حیاتِ اسلامی کی زبردست لہر دوڑا دی۔

پاک میڈیا فورم کے صدر ذکاءاللہ محسن نے اپنے خطاب میں مولانا ظفر علی خان کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت تھے، انہوں نے اردو کے نرم و نازک مزاج میں صحافتی انداز سے نئی جان ڈالی اور اس میں سیاسی گھن گرج پیدا کی، انہوں نے ہندوستان بھر سے اعلیٰ درجے کے ادیب اور صحافی اکٹھے کئے، نیاز فتح پوری، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر، چراغ حسن حسرت، مرتضیٰ احمد خان میکش، خدا بخش اظہر، حاجی لق لق اور بے شمار ادیب اور صحافی ان کے اخبار میں کام کرتے رہے.

خطیب ریاض حافظ عبدالوحید  نے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا کہ مولانا ظفر ؔعلی خان، صحافت ، خطابت اور شاعری کے علاوہ ترجمے میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے، حیدر آباد میں قیام کے دوران مولانا نے ’’لارڈ کرزن‘‘ کے انگریزی سفرنامہ ایران کا ترجمہ ’’خیابانِ فارس‘‘ کے نام سے شائع کیا تو پنجاب یونیورسٹی نے آپ کو پانچ صد روپے انعام دیا۔ ’’لارڈ کرزن‘‘ نے سونے کے دستے والی چھڑی آپ کو پیش کی، اس کے علاوہ مولانا ظفرؔ علی خان کے تراجم میں فسانۂ لندن، سیر ِظلمات اور معرکۂ مذہب و سائنس بہت معروف ہوئے اُنھوں نے ایک ڈرامہ ’’جنگ روس و جاپان‘‘ بھی لکھا.



مہمانِ خصوصی جناب الیاس رحیم نے مولانا ظفر علی خان جیسے قومی لیڈر کا دن منانے پر حلقہء فکروفن کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ پردیس میں اس طرح کی محفلیں جاری رہنا چاہیں، انہوں نے کہا کہ بابائے صحافت کا شمار قائداعظم کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی جان و مال اور تن من دھن ملت اسلامیہ کے لئے وقف کیا ہوا تھا ۔ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے.



الیاس رحیم نے مزید کہا کہ مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت تھے اور ان کا اخبار ’’زمیندار‘‘ ام الصحافت کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ زمیندار سے وابستہ بیشتر افراد نے بعد ازاں اپنے اخبار جاری کئے، گویا دیئے سے دیا جلا اور اردو صحافت میں ایک عظیم تنوع پیدا ہوا.

آخر میں تقریب کے صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ حلقہ فکروفن نے ہمیشہ تشنگان شعروادب کی سماعتوں کو آسودگی بخشنے کے لئے نامور ادباء اور شعراء کی محفلیں سجائی ہیں اور آج کی تقریب بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے، مولانا ظفر علی خان ہنگامہ پرور سیاسی رہنما ، بے باک صحافی ، شعلہ بیان مقرر ، بے مثل نقاد ، اعلیٰ درجے کے مترجم اور قادرالکلام شاعر تھے، مولانا نے پر آشوب دور میں قلم کی حرمت کا پرچم بلند کر کے سچائی کا ساتھ دیا، انگریزی سامراجیت کے خلاف وہ امن کا پرچم لے کر آگے بڑھے، انہوں نے صحافتی اقدارکے فروغ کے لئے کسی بھی سودے بازی کو قبول نہ کیا، عصر حاضر میں سچ لکھنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے، علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ترکی میں مصطفی کمال کی تلوار اور ہندوستان میں ظفر علی خان کے قلم نے مسلمانوں کو بیدار کیا، موجودہ دور کے صحافیوں کے لئے انکی زندگی مشعل راہ ہے، ہماری موجودہ نوجوان نسل کو ان کے کارہائے نمایاں جو تاریخ کے اوراق میں دفن ہیں سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان کے نقش قدم پر چل سکیں، آخر میں انہوں نے اپنا کلام پیش کیا جو نذرِ قارئین ہے،
شادمانی اگر میسر ہو
زندگی خوب مسکراتی ہے
اور اگر ساتھ چھوڑ دیں پیارے
گھپ اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے

حافظ عبدالوحید کی دعاء پر پروگرام اختتام پذیر ہوا  اور آخر میں مہمانوں کی تواضع پر تکلف کھانے سے کی گئی.