دنیا کی ’قیامت کی گھڑی‘ اب بھی 100 سیکنڈز پر برقرار

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 22 جنوری 2022 19:00

دنیا کی ’قیامت کی گھڑی‘ اب بھی 100 سیکنڈز پر برقرار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جنوری 2022ء) 'بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس‘ کی صدر ریچل برونسن نے 'ڈومز ڈے کلاک‘ کے وقت کا دوبارہ جائزہ لے کر اسے نصف شب سے 100 سیکنڈ پہلے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بتایا کہ آج کے وقت کی دنیا دو سال پہلے کی نسبت زیادہ محفوظ نہیں ہے، اس لیے 'قیامت کی گھڑی‘ کا وقت آج بھی وہی ہے جو دو برس پہلے تھا۔

اس گھڑی کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر انہوں نے رپورٹرز کو بتایا، ''اگر انسانیت کو اپنے وجود کو لاحق خطروں سے بچنا ہے تو قومی رہنماؤں کو غلط معلومات کے خلاف بہتر اقدامات کرنا ہوں۔‘‘

گروپ کے بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ گھڑی کا وقت نصف شب کے قریب نہ آنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسانیت کو لاحق خطرات اسی سطح پر برقرار ہیں بلکہ ''اس کے برعکس گھڑی انسانی تہذیب کے خاتمے کے قریب تر ہے کیوں کہ دنیا اب بھی انتہائی خطرناک حالت پر کھڑی ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

ادارے کے مطابق 2021 میں کئی مثبت تبدیلیاں بھی دیکھی گئیں۔ روس اور امریکا کے مابین ہتھیاروں کی روک تھام کا معاہدہ طے پایا۔ لیکن دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر کشیدگیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ یوکرائن کے معاملے پر حالیہ کشیدگی بھی ان میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں روس، امریکا اور چین ہائپر سونک میزائلوں کی تیاری بھی کرتے رہے جس سے دنیا کو خطرہ لاحق ہے۔

اسی طرح رواں برس کی ماحولیاتی کانفرنس میں طے کیے گئے فیصلوں کو بھی دنیا کے لیے خوش آئند قرار دیا گیا۔ تاہم مثبت بیانیے کے باوجود عملی سطح پر کم اقدامات نے ممکنہ مثبت اثرات کو زائل کر دیا۔

'قیامت کی گھڑی‘ کیا ہے؟

یہ گھڑی سن 1947 میں پہلی مرتبہ تیار کی گئی تھی۔ ڈومز ڈے کلاک کو انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ عوام کو آگاہ کیا جا سکے کہ انسانوں کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجیز کی وجہ ہی سے ہم نے اپنی دنیا کو کیسے تباہی کے قریب لا کھڑا کیا ہے۔

سن 1945 میں البرٹ آئن سٹائن اور جے روبرٹ اوپنہائمر سمیت جوہری ہتھیار کی تیاری میں شامل 'مین ہیٹن پروجیکٹ‘ پر کام کرنے والے دیگر سائنس دانوں نے 'دی بلیٹن‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے دو برس بعد اس گھڑی کو بطور علامت تخلیق کیا گیا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد اور سرد جنگ کی صورت حال میں امریکا اور سوویت یونین کے مابین جوہری ہتھیاروں کی دوڑ جاری تھی۔

'قیامت کی گھڑی‘ اسی تناظر میں علامتی طور پر دنیا کو بتاتی تھی کہ انسانیت کی بقا کو کتنا خطرہ لاحق ہے اور اب اس کے پاس کتنا وقت باقی ہے۔

سن 2007 سے اس گھڑی کا وقت تبدیل کرتے وقت ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے خطرات کو بھی شمار کیا جانے لگا۔

وقت کا تعن کون کرتا ہے؟

ابتدا میں بلیٹن کے ایڈیٹر اور ہتھیاروں کے خاتمے کی تحریک کے رہنما یوجین روبینووچ گھڑی کا وقت تبدیل کرتے تھے۔

تاہم 1973 میں ان کی وفات کے بعد بلیٹن کے بورڈ نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ تب سے یہ بورڈ سال میں دو مرتبہ بیٹھتا ہے اور جوہری ہتھیاروں، سکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق ماہرین کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے وقت تبدیل کرتا ہے۔

اس گھڑی میں منٹوں والی سوئی رات بارہ بجے کے جتنے قریب ہو گی، اتنا ہی انسانیت کی بقا کو زیادہ خطرہ لاحق ہو گا۔

اس علامتی گھڑی کا وقت نصف شب سے زیادہ سے زیادہ 17 منٹ دور سن 1991 میں کیا گیا تھا۔ تب سرد جنگ کا خاتمہ اور سوویت یونین اور امریکا کے مابین ہتھیاروں کی کمی کے لیے کیے گئے معاہدے کے سبب یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دنیا کو لاحق خطروں میں کمی واقع ہوئی ہے۔