Live Updates

نورالحق قادری کے خط کی مذمت ، استعفے کا مطالبہ

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 18 فروری 2022 20:20

نورالحق قادری کے خط کی مذمت ، استعفے کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2022ء) وفاقی وزیر نورالحق قادری نے اپنے خط میں وزیراعظم عمران خان کو تجویز کیا تھا کہ عورت مارچ کی بجائے 8 مارچ کو یوم حجاب منایا جائے۔ خواتین تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین کے حوالے سے یہ ایک بین الاقوامی دن ہے جسے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے اور کوئی بھی خواتین کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے حقوق کے لئے آٹھ مارچ کو نہ نکلیں۔

وزیراعظم کو وضاحت پیش کرنی چاہیے

حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی معروف سماجی کارکن فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " وزیراعظم عمران خان کو فورا اس قابل مذمت خط کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہیے اور اس وزیر کو اس کے عہدے سے ہٹانا چاہیے کیونکہ اس طرح کے خط سے انتہا پسندوں اور مذہبی شدت پسندوں کے حوصلہ بڑھیں گے، خواتین مارچ کو پہلے ہی بہت ساری مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے اور اس طرح کے خطوط سے ان کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔

(جاری ہے)

"

مرد ساتھ دیں، راہنمائی نہ کریں

فرزانہ باری نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا، " میں یہ بات واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اگر خواتین مارچ پر کوئی حملہ یا تشدد ہوا تو اس سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوگی۔"

مارچ ہر حالت میں ہوگا

فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ ان تمام خطرات اور دھمکیوں کے باوجود خواتین مارچ ہر صورت پورے پاکستان میں منعقد ہوگا۔

"پاکستان خواتین کے حقوق کے حوالے سے کئی عالمی معاہدوں پر دستخط کرچکا ہے اور حکومت کسی بھی بنیاد پر اس مارچ کو روک نہیں سکتی حکومت کسی بھی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر لے یہ مارچ ہر صورت میں ہوگا اور ملک کے طول و عرض سے خواتین اپنے حقوق کے لئے نکلیں گی جو پدر شاہی نظام کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔"

نورالحق قادری کو معافی مانگنی چاہیے

کراچی سے تعلق رکھنے والی حقوق نسواں کی کارکن انیس ہارون کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر کو اپنے اس بیان پر معافی مانگنی چاہیے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ افسوس کی بات ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے اب تک اس پر کوئی بیان نہیں آیا، وفاقی وزیر کو اپنا بیان واپس لینا چاہیے، ان کا یہ بیان انتہائی نامناسب ہے، انہیں شاید یہ علم نہیں کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں ان کی تعلیم، صحت اور روزگار کے حقوق پامال کئے جا رہے ہیں۔ 8 مارچ کا دن ان تمام مسائل کی طرف توجہ دلانے کے لئے منایا جاتا ہے، یہ خواتین کا آئینی حق ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔

"

تنقید درست ہے

تاہم دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کا دعوی ہے کہ عورت مارچ پر تنقید درست ہے اور اس پر پابندی لگنی چاہیے۔ جمیعت علماء اسلام کی مرکزی شوریٰ کے رکن جلال الدین ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اس طرح کے مارچ حقوق نسواں کے نام پر مغربی تہذیب کو فروغ دے رہے ہیں اور مغربی اقدار کی پاسداری کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فحاشی پھیلاتے ہیں اور معاشرے کو بے راہ روی کی طرف لے کر جاتے ہیں لہذا ان پر پابندی لگنا چاہیے۔

"

تعلیمی اداروں میں محبت اور نفرت کی نئی لہریں

جلال الدین ایڈووکیٹ کے بقول، "یہ حکومت خود بھی معاشرے میں برائیوں کو فروغ دے رہی ہے، آپ ٹیلی ویژن ڈرامے دیکھیں اور ان کے موضوعات دیکھیں، یہ ڈرامے اس حکومت کی مرضی سے ہی آرہے ہیں، ماضی میں شیریں مزاری نے ایسے قوانین بنانے کی کوشش کی جو کسی بھی طور پر اسلامی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے تھے اور انہیں اسلامی نظریاتی کونسل نے روکا۔

"

بگڑی ہوئی روحیں

حکومتی حلقوں کی طرف سے صرف نورالحق قادری نہیں بلکہ دوسرے بھی رہنما ہیں جو عورت مارچ کے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر جمشید اقبال چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہمارے معاشرے کی کچھ اقدار ہیں جن کی ہر صورت میں پاسداری کرنا چاہیے لیکن یہ بگڑی ہوئی روحیں جو عورت مارچ منعقد کرتی ہیں یہ معاشرتی اقدار، نکاح کے ادارے اور دوسری معاشرتی روایات کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔

ان کے خلاف سازش کرنا چاہتی ہیں۔"اسلام آباد، عورت مارچ کا پرامن اہتمام

جمشید اقبال چیمہ کے بقول اس مارچ میں جو نعرے لگائے جاتے ہیں وہ انتہائی قابل اعتراض ہیں۔ "اس کے علاوہ جو کتبے اٹھائے جاتے ہیں ان پر بھی قابل اعتراض باتیں لکھی ہوئی ہوتی ہیں جو ہماری معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔"

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات