تمباکو کی مصنوعات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 30 فیصد اضافہ کیا جائے، سپارک کے زیر اہتمام تقریب سے مقررین کا خطاب

بدھ 27 اپریل 2022 15:30

تمباکو کی مصنوعات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 30 فیصد  اضافہ کیا جائے، ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 اپریل2022ء) انسداد تمباکونوشی کے ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق تمباکو کی مصنوعات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 30 فیصد اضافہ کیا جائے۔اس سے نہ صرف محصولات بڑھیں گی بلکہ صحت کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کے زیر اہتمام بدھ کو یہاں مقامی ہوٹل میں تمباکو پر ٹیکس کو پاکستان کی خراب معیشت کی بہتری لیے ایک ممکنہ حل کے طور پر اجاگر کرنے کے لیے منعقدہ ایک سیشن کے دوران کیا۔

اسپارک کے پروگرام منیجر خلیل احمد ڈوگر نے کہا کہ پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر ہے جہاں درست فیصلہ سازی کی اشد ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

قومی خزانے کو درپیش خسارہ پالیسی سازوں کی فوری توجہ کا متقاضی ہے تاہم جو بھی اقدام کیے جائیں ان کو عوام کے حق میں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ملکی خزانے کی دیرپا مدد نہیں کر سکتا ۔

حکومت کو غیر ضروری اور مضر صحت اشیاء جیسے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانا چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف محصولات بڑھیں گی بلکہ صحت کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ بظاہر تو تمباکو کی مصنوعات پر زیادہ ٹیکس لگانے میں کوئی دیر نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم تمباکو کی صنعت کی جانب سے کی گئی کثیر خرچ مہمات اور گمراہ کن معلومات سے متاثر ہو کر پاکستان کے پالیسی سازوں نے اس حوالے سے کوئی سنجیدہ دلچسپی نہیں لی اور تمباکو کی مصنوعات خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے کم نرخوں پر فروخت ہو رہی ہیں۔

آسان دستیابی اور سستی قیمتوں کی وجہ سے، تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد 2 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جو کینسر، ذیابیطس، دل کی بیماری، فالج اور پھیپھڑوں کی دائمی بیماریوں جیسے غیر متعدی امراض کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ 170,000 افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں.انھوں نے کہا کہ تمباکو کا استعمال بچوں کی صحت پر براہراست اثرات مرتب کرتا ہے۔

پاکستان میں روزانہ 1200 بچے سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔ تمباکو پر ٹیکس بڑھانے سے یہ تعداد کم ہو جائے گی۔ تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ تمباکو کے استعمال اور اس سے منسلک صحت کے خطرات کو کم کرنے کا سب سے موزوں اقدام ہے، خاص طور پر کم آمدنی والی آبادی والے صارفین اور بچوں میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔کرومیٹک ٹرسٹ کے سی ای او شارق محمود خان نے اقتصادی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوۓ کہا کہ تمباکو کے استعمال سے سالانہ 615 ارب کا معاشی بوجھ پڑتا ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے۔

اس کی وجہ سے کئی منفی اثرات ہوتے ہیں جیسا کہ صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات اور تمباکو سے منسوب بیماریوں کی وجہ سے صارفین کی پیداواری صلاحیت میں کمی۔ دوسری طرف 2019 میں تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی 120 ارب ہے جو تمباکو نوشی کی کل لاگت کا تقریباً صرف 20 فیصد ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمباکو کے استعمال سے ہونے والے صحت اور معاشی اخراجات ٹیکس کی وصولیوں سے پانچ گنا زیادہ ہیں، اگرچہ تمباکو کی صنعت سطحی طور پر ایک بڑی ٹیکس دینے والی صنعت ہےلیکن تمباکو کی صنعت کا ادا کردہ ٹیکس تمباکو کے استعمال سے صحت پر ہونے والی لاگت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

ٹوبیکو کنٹرول پاکستان فار وائٹل اسٹریٹیجیز کے کنٹری ہیڈ ڈاکٹر ضیاء الدین اسلام نے کہا کہ تمباکو پر ٹیکس تمباکونوشی کی روک تھام کیلئے سب سے زیادہ کفایتی اقدام ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ سگریٹ پر زیادہ ٹیکس سگریٹ نوشی کے آغاز کو روکتا ہے، سگریٹ کا استعمال کم کرتا ہے، اور یہاں تک کہ تمباکو نوشی چھوڑنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سابق حکومت کو تمباکو پر ٹیکس کو بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ موجودہ حکومت کے لیے یہ سنہری موقع ہےکہ وہ یہ قدم اٹھا کر عوام اور ملکی معیشت کی مدد کرے۔

متعلقہ عنوان :