وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن ؛ سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی کو طلب کرلیا

سب راضی ہیں کہ آج وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب نہیں ہوسکتا ‘ حمزہ شہباز اور پرویزالہٰی کو ویڈیولنک پر بلالیں۔ چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس

Sajid Ali ساجد علی جمعہ 1 جولائی 2022 15:13

وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن ؛ سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 01 جولائی2022ء) وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی کو طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی لاہورہائیکورٹ کے فیصلے خلاف اپیل پر سماعت جاری ہے جہاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس جمال خان مندو خیل پر مشتمل 3 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے ، اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی کو طلب کرلیا ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ خواہشات نہیں، آئین کے مطابق فیصلہ کریں گے، سب راضی ہیں کہ آج وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب نہیں ہوسکتا ، حمزہ شہباز اور پرویزالہٰی کو ویڈیولنک پر بلالیں۔

اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آج 4 بجے ووٹنگ کا عمل نہیں ہوگا ، نئے انتخاب تک حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بننے پر کسی کو اعتراض نہیں۔

(جاری ہے)

قبل ازیں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ 5 درخواستیں ہیں کس کی طرف سے کون سا وکیل پیش ہورہا ہے وہ بتائیں ، اس پر بابر اعوان نے کہا کہ میں درخواست گزار سبطین خان کی طرف سے پیش ہورہا ہوں ، اپنے دلائل میں پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ جس جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے ، وہ ایک نکتے پر متفق بھی ہوئے ہیں، سادہ سی بات ہے کہ فیصلے میں کہا گیا ہے جنہوں نے 197 ووٹ لیے ہیں ان میں سے25 ووٹ نکال دیے ہیں ، جب وہ 25 ووٹ نکال دیتے ہیں تودوبارہ گنتی کرائیں ، چار ججز نے یہ کہا ہے پہلے گنتی کرائیں اگر 174 کا نمبر پورا نہیں تو پھر انتخاب کرائیں ، ووٹنگ کے دوران جتنے بھی میمبر ایوان میں موجود ہوں گے اس پر ووٹنگ ہونی ہے جو کامیاب ہوگا وہ کامیاب قرارپائے گا تاہم آپ کی درخواست ہے کہ وقت کم دیا گیا ہے اور آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کے کچھ ممبران چھٹیوں اور حج کا فریضہ ادا کرنے گئے ہیں؟۔

اس پر پی ٹی آئی وکیل بابر اعوان نے کہا ہماری استدعا ہے کہ زیادہ سے زیادہ میمبران کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست میں یہ بات نہیں ہم آپ کی درخواست کو پڑھ کر آئے ہیں ، بنیادی طور پر تو آپ یہ مانتے نہیں کہ فیصلہ آپ کے حق میں ہوا ہے۔ بابر اعوان نے کہا کہ اصولی طور پر اس فیصلے کو مانتے ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ 4 ججز نے آج کی اور ایک جج نے کل کی تاریخ دی ہے ، کیا آپ کل کی تاریخ پر راضی ہیں؟ جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ جو ممبران کہیں گئے ہوئے ہیں وہ 24 اور 48 گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں ، آپ بتائیں جو مناسب وقت آپ کو چاہیے؟۔

بابر اعوان نے کہا ہم الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن لیول پلینگ فیلڈ کے لئے وقت دیا جائے ، ہمیں 7 دن کا وقت دیا جائے ، اس پر جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ 7 دن کا وقت مناسب نہیں ، بابر اعوان نے جواب دیا کہ ہم تو 10 دن چاھتے تھے ، ہماری پانچ مخصوص نشستوں پر خواتین کا نوٹیفیکیشن ہونا ہے اس کو سامنے رکھا جائے۔ اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 7 دن صوبہ وزیر اعلی کے بغیر رہے گا ، ہم آپ کی مزید وقت دینے کی پریشانی کوسمجھتے ہیں لیکن یہ بتائیں کہ اگر وقت دیتے ہیں تو اس دوران صوبے کا معاملات کیسے چلیں گے؟ میرے خیال میں گورنر کی جانب سے عبوری طور پر کام کرتے ہیں تو وہ عمل غیر آئینی ہوگا ۔