لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن اور جامعہ کراچی کے اشتراک سے ’’ کووڈ ایک حقیقت سوافسانے‘‘ کے عنوان سے ورکشاپ کا انعقاد

جمعرات 4 اگست 2022 17:49

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 اگست2022ء) لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے زیر اہتمام اور شعبہ مائیکروبائیولوجی جامعہ کراچی کے اشتراک سے دوروزہ ورکشاپ بعنوان: '' کووڈ ایک حقیقت سوافسانے'' کی افتتاحی تقریب کراچی یونیورسٹی بزنس انکیوبیشن سینٹر کے ٹریننگ ہال میں منعقد ہوئی ۔لندن اسکول آف ہائی جین کی ڈاکٹر سعدیہ سعید نے کہا کہ مذکورہ ورکشاپ کا مقصد کورونا ویکسین سے متعلق پھیلنے والی غلط خبروں سے متعلق طلباوطالبات کو آگاہی فراہم کرنا ہے۔

آگاہی کے فقدان کی وجہ سے پاکستان میں کوروناوائرس اتنی سنجید گی سے نہیں لیاجارہاہے جتنی سنجید گی سے اس کو لینے اور اور اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں لوگوں کوکوروناویکسین لگوانے کی طرف راغب کرنے کے بجائے ان کی ذہن سازی کی جارہی کہ کورونا ویکسین نقصان دہ ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

(جاری ہے)

ہمیں اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور صحت کے معاملے میں کسی بھی قسم کے ابہام کا سدباب ناگزیر ہے۔

اس موقع پر کووڈ سے متعلق سوال وجواب کا سیشن بھی ہوا،ورکشاپ کے شرکاء سے کووڈ سے متعلق سوال نامے پُر کروائے گئے جو کووڈ ماہرین کو بھیجے گئے اور انہوں نے سائنٹیفک ویڈیوز کے ذریعے طلبہ کو آگاہی فراہم کیں اور انہیں باورکرایا کہ کووڈ ویکسین انسانی صحت کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ فائدہ مند ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آج آپ کو جو معلومات حاصل ہوئیں ہیں انہیں دوسروں تک پہنچائیں اور اس کووڈ ویکسین سے متعلق آگاہی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اور اس سے متعلق جاری کی جانے والی حفاظتی تدابیر پر عمل کو یقینی بناتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی صحت کا خیال رکھیں۔

شعبہ مائیکروبائیولوجی جامعہ کراچی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عروج ظفر کا کہنا تھا کہ اس طرح کے آگاہی ورکشاپس کا تواتر سے انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ آگاہی کے بغیر ہم اس وبا ء پر قابونہیں پاسکتے ۔طلبہ نے اس طرح کے آگاہی ورکشاپ کے باقاعدگی سے انعقاد پر زوردیا اور منتظمین کے کردار کوسراہا۔ اس موقع پر ڈائریکٹر آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر بلقیس گل اور چیئر مین شعبہ مائیکروبائیولوجی جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر تنویر عباس اور دیگر اساتذہ وطلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔