ویپنگ بھی تمباکو نوشی جتنی ہی خطرناک

DW ڈی ڈبلیو بدھ 25 جنوری 2023 16:20

ویپنگ بھی تمباکو نوشی جتنی ہی خطرناک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2023ء) پاکستان میں بہت سے شہری حلقے اگر ویپنگ (vaping) کو تمباکو نوشی کا کم نقصان دہ متبادل سمجھتے ہیں تو بہت سے صارفین اسے باقاعدہ ایک تفریح بھی قرار دیتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ خاص طور پر شہری علاقوں کے نوجوان پاکستانی لڑکے لڑکیوں میںای سگریٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت باعث تشویش ہے۔

تپ دق اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے خلاف انٹرنیشنل یونین کے سن سو ہزار بیس کے ایک جائزے کے مطابق تب پاکستان میں تمباکو نوش افراد کی تعداد سوا دو کروڑ تھی، جن میں خواتین بھی شامل تھیں مگر مردوں کی تعداد بڑی اکثریت میں تھی۔

تمباکو نوشی اور ویپنگ دونوں نقصان دہ

الیکٹرانک سگریٹ کا استعمال روایتی سگریٹ نوشی کے مقابلے میں کس حد تک نقصان دہ ہے اور کیا عمومی تاثر کے مطابق ویپنگ کو ''مقابلتاً محفوظ‘‘ کہا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ڈی ڈبلیو نے بات کی اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے ماہر امراض قلب ڈاکٹر لیاقت علی سے، جنہوں نے زور دے کر کہا کہ تمباکو نوشی اور ویپنگ طبی طور پر دونوں ہی انتہائی خطرناک ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان، ’موت کے سوداگروں‘ کے ہاتھوں زندگی فروخت

کارڈیالوجسٹ لیاقت علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''روایتی تمباکو نوشی اور ویپنگ دونوں ہی کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے اور فالج کا خطرہ عموماً بہت بڑھ جاتا ہے۔ خون کی شریانوں میں شوزش کے نتیجے میں بازوؤں، ٹانگوں اور انگلیوں پر زخم بھی بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمباکو نوشی اور ویپنگ دونوں ہی صورتوں میں چھاتی اور پھیپھڑوں کے سرطان کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں‘‘۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تمباکو نوشی کے علاوہ ویپنگ بھی متعلقہ فرد کی افزائش نسل کی اہلیت کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر اس وجہ سے خواتین کو حاملہ ہونے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دیگر مسائل میں بالوں کا گرنا، جسمانی مدافعتی نظام کا کمزور اور دانتوں کا پیلا پڑ جانا وغیرہ بھی شامل ہیں۔

ویپنگ تمباکو نوشی سے کم نقصان دہ؟

ڈاکٹر لیاقت علی کے بقول ویپنگ بظاہر ایک بےضرر سی عادت لگتی ہے یا قرار دی جاتی ہے لیکن درحقیقت یہ ہلاکت خیز ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے پاس اکثر ایسے نوجوان مریض آتے ہیں، جنہوں نے ماضی میں سگریٹ چھوڑ کر ویپنگ شروع کی لیکن اس سے انہیں ان کے خواہش کردہ نتائج حاصل نہ ہوئے۔ اس کے برعکس انہیں بے چینی، ڈپریشن، کھانسی، منہ اور گلے کے خشک رہنے اور سر چکرانے کا سامنا کرنا پڑا، ''کئی واقعات میں تو ایسے نوجوانون نے معدے اور گردے کے درد کی شکایت بھی کی‘‘۔

ڈاکٹر لیاقت علی نے اس تاثر کی بھرپور تردید کی کہ ویپنگ تمباکو نوشی سے بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ تمباکو نوشی کی جگہ ملک میں کتنے فیصد شہریوں نے ویپنگ کی عادت اپنائی ہے لیکن یہ بات مصدقہ ہے کہ عام سگریٹ اور ای سگریٹ دونوں ہی برابر مضر صحت ہیں۔

جگ مگ کرتے ویپنگ ہاؤسز نوجوانوں کی توجہ کا مرکز

اسلام آباد کے صرف سیکٹر ایف الیون کے مرکز ہی میں تقریباﹰ بارہ ویپنگ سینٹر موجود ہیں۔

انہی میں سے ایک سجا سجایا اور جگ مگ کرتا ''ویپ ون‘‘ نامی ویپنگ ہاؤس چلانے والے شاہ زیب مبین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے ویپنگ ہاؤس میں روزانہ ساٹھ سے سو تک گاہک آتے ہیں، جن میں زیادہ تر ایسے ہوتے ہیں، جو روایتی سگریٹ نوشی ترک کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ویپنگ سینٹر میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکے لڑکیاں بھی آتے ہیں لیکن انہیں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

ان کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ طلب چینی ساختہ ای سگریٹ کی ہے۔

ایک ویپنگ پیکج چھ سے بارہ ہزار روپے تک کا

شاہ زیب مبین نے بتایا کہ ایک ڈسپوزیبل ای سگریٹ کی قیمت دو ہزار سے لے کر پانچ ہزار روپے تک ہوتی ہے جبکہ ری فل کے ساتھ یہ پیکج چھ ہزار سے لے کر بارہ ہزار روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کاہک صرف مختلف فلیورز خریدنے آتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ای سگریٹ ڈیوائس پہلے سے موجود ہوتی ہے۔

شاہ زیب مبین کے مطابق، ''زیادہ تر سگریٹ نوش جب پہلی بار ای سگریٹ خریدنے آتے ہیں، تو ان کی باقاعدہ رہنمائی کی جاتی ہے کہ انہیں کتنی مقدار میں مائع نیکوٹین والی پروڈکٹ استعمال کرنا چاہیے۔ اگر یہ مقدار بتدریج کم کی جائے، تو متعلقہ فرد ویپنگ چھوڑ بھی سکتا ہے۔‘‘

شاہ زیب مبین نے یہ بھی بتایا کہ انہیں اس کاروبار میں منافع دس سے پندرہ فیصد تک ہوتا ہے۔

'باپ کا ڈر نہ ہو تو ماں کی کون سنے‘

اسلام آباد میں بنی گالہ کے ستاون سالہ رہائشی خالد عباداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ گزشتہ انتالیس سال سے تمباکو نوشی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ''جو بچے کم عمری میں ہی یتیم ہو جاتے ہیں، وہ دوستوں کو دیکھتے ہوئے سگریٹ نوشی یا دیگر نشوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔ عام سماجی رویہ یہ ہے کہ جب باپ سر پر نہ ہو، تو بچوں کو ماں کا بھی کوئی ڈر نہیں رہتا۔

‘‘

خالد عباداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے بھی جب اپنے والد کی وفات کے بعد ان کا کاروبار سنبھالا، تو پھر دوستوں کے ساتھ بطور تفریح تمباکو نوشی بھی شروع کر دی، جو اتنے سالوں بعد اب ان کے لیے 'وبال‘ بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں کافی عرصے سے تمباکو نوشی ترک کرنے کی کوش میں ہوں لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں۔ میں نے بھی سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے ای سگریٹ کا سہارا لیا ہے۔

میں چاکلیٹ کے ذائقے والا ای سگریٹ استعمال کروں تو مجھے کافی دیر تک دوبارہ سگریٹ پینے کی طلب محسوس نہیں ہوتی۔‘‘

ویپنگ کا نتیجہ ڈپریشن اور بے چینی

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین کی رہائشی تئیس سالہ ثمرین کریم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب وہ سولہ سال کی تھیں، تب ہی سے وہ سگریٹ نوشی کی عادی ہو گئی تھیں اور کبھی کبھی تو دوستوں کے ساتھ چرس بھی پینے لگی تھیں۔

انہوں نے کہا، ''پھر میرے پیٹ میں مسلسل درد ہونے لگا تھا اور ڈپریشن اور بے چینی بھی رہتی تھی۔ تب ڈاکٹر نے مجھے سختی سے سگریٹ نوشی چھوڑنے کے لیے کہا تھا۔ اب میں ای سگریٹ پیتی ہوں۔‘‘

ثمرین کریم کے بقول، ''میں جب تک ویپنگ کروں، تب تک تو میں ٹھیک رہتی ہوں مگر بعد میں مجھے شدید سر درد ہونے لگتا ہے اور موڈ بھی خراب رہتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان کے والدین انہیں سگریٹ پینے کی وجہ سے ڈانٹتے بھی ہیں، ''لیکن مجھے ایسی عادت ہو گئی ہے کہ لگتا ہے میں کبھی بھی مکمل طور پر ویپنگ نہیں چھوڑ سکوں گی۔‘‘