اپنی زبانوں سے عشق و محبت کرنے والے سیاسی کارکن،قلم کار منظم ہو کرمقامی زبانون میں اپنی تخلیقات سامنے لائیں،میر لشکری خان رئیسانی

ہفتہ 18 نومبر 2023 21:10

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 نومبر2023ء) سینئر سیاست دان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ اپنی زبانوں سے عشق و محبت کرنے والے سیاسی کارکن،قلم کار منظم ہو کرمقامی زبانون میں اپنی تخلیقات سامنے لائیں ۔ یہ بات انہوں نے ہفتہ کو خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران کے زیراہتمام ایران اور بلوچستان کے مشترکہ مفاخر و مشاہیر کی یاد میں منعقدہ ادبی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ، کانفرنس سے ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران سید ابوالحسن میری ، ڈاکٹر مصطفی ، ڈاکٹر رقیہ ہاشمی ، ڈاکٹر عبدالرف رفیقی ، سنگت رفیق بلوچ ، پروفیسر ڈاکٹر نصیب اللہ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس علمی محفل میں شریک علمی و ادبی شخصیات نے مولوی عبداللہ روانبد ، میر گل خان نصیر ، ملا عبدالسلام عشیزئی ، محمد علی اختیار ، مولوی محمد حسن براہوئی کے حوالے سے یہاں مکالمے بھی پیش کئے ، انہوں نے مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ فارسی زبان میں بھی شاعری اور تصانیف کو کیوں ترجیح دی یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اس کا سہرا ان اساتذہ کے سر جاتا ہے جنہوں نے مختلف اوقات میں فارسی زبان کو زندہ رکھا اور اس کی ترویج کیلئے دن رات کوشش بھی کی، انہوں نے کہا کہ زبان رابطے کا ذریعے ہے مگر فارسی زبان کو رابطہ کے ساتھ ساتھ اس کے اساتذہ نے ایک شاہکار زبان بھی بنایا جس میں علم اور ادب میں بڑی بڑی تخلیقات موجود ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جب فارسی زبان میں علم و ادب کو دیکھیں تو کوہ پامیر سے بغداد تک فارسی زبان کے بڑے بڑے اساتذہ ، محقق ، علمی اور مذہبی شخصیات نظر آتی ہیں ، گنجا کے علاقے سے نظام گنجوی سے لیکر دہلی کے دربار تک فارسی زبان کو اساتذہ نے پہنچایا ، بلخ سے مولانا رومی ، قونیہ تک سلجوکی بادشاہوں اور شہنشاہوں کے دربار تک فارسی زبان کو پہنچایا گیا ،ان عظیم اساتذہ نے دیگر زبانوں کو مجبور کیا کہ یا تو وہ فارسی زبان سے اثر لیں یا پھر فارسی زبان میں ادبی تخلیقات کریں ، ایران سے بڑے بڑے اساتذہ کی کتابیں نمروز ، قندھار ، قابل ، قلات ، خاران اور کیچ سے برصغیر میں پہنچیں تو علم کی اس روشنی نے ہماری علمی ادبی پہلو کو بھی کہیں نہ کہیں اثر انداز کیا۔

انہوں نے کہا کہ فارسی زبان کو بہت سے بڑے بڑے بحرانوں کا سامنا رہا مگر شکایات کرنے کی بجائے اس کے لوگوں نے اپنے اس زبان کو زندہ رکھا۔انہوں نے کہاکہ فردوسی نے اپنے زمانہ میں بڑے مظالم دیکھے اس کے باوجود انہوں نے شاہنامہ تخلیق کیا۔ ہمارے خطے میں المیہ یہ ہوا کہ انگریزی سامراج نے ہمیں تقسیم کرنے کیلئے سازشیں کرکے دہلی کی زبان کو ہم پر مسلط کیا ، سات دہائیوں کے دوران کبھی انگریزی زبان کو دفاتر میں رائج کیا جاتا ہے تو کبھی اردو زبان کو رائج کیا جاتا ہے۔

انہوںنے کہاکہ ہم شناخت کے بہت بڑے بحران سے گزررہے ہیں ، اساتذہ ، سیاسی کارکنوں اور قلم کاروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو منظم کرکے مقامی زبانون میں اپنی تخلیقات سامنے لائیں ، اپنی زبانوں کے ساتھ عشق و محبت یہ ہے کہ جو زبانیں معدوم ہورہی ہیں ان کو زندہ رکھا جائے۔