شمالی کوریا کے جاسوس سیٹلائٹ نے وائٹ ہائوس کی تصویریں اتارلیں

بدھ 29 نومبر 2023 14:37

شمالی کوریا کے جاسوس سیٹلائٹ نے وائٹ ہائوس کی تصویریں اتارلیں
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 نومبر2023ء) دہائیوں تک عالمی طاقتوں کی سیٹلائٹ نگرانی میں رہنے کے بعد شمالی کوریا نے اپنا پہلا جاسوس سیٹلائٹ مدار میں بھیج کر دنیا کو پیغام دیا ہے کہ اب ہم بھی آپ کو دیکھ سکتے ہیں۔ شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے وائٹ ہائوس، پینٹاگون اور نورفولک کے بحری اڈے پر موجود امریکی طیارہ بردار جہازوں کی جاسوس سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کا جائزہ لیا۔

شمالی کوریا نے گزشتہ ہفتے کامیابی کے ساتھ اپنا پہلا جاسوسی سیٹلائٹ لانچ کیا تھا، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امریکی اور جنوبی کوریا کی فوجی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔شمالی کوریا کے میڈیا نے رپورٹ کیا کہ سیٹلائٹ نے امریکی دارالحکومت کے علاوہ جنوبی کوریا، گوام اور اٹلی کے شہروں اور فوجی اڈوں کی تصویر کشی کی ہے۔

(جاری ہے)

ابھی تک پیانگ یانگ نے سیٹیلائٹ سے لی گئی کوئی تصویر جاری نہیں کی ہے، جس سے تجزیہ کاروں اور غیر ملکی حکومتیں اس بحث میں الجھ گئی ہیں کہ نیا سیٹلائٹ حقیقت میں کتنا قابل ہے۔جیمز مارٹن سینٹر فار نان پرولیفریشن اسٹڈیز کے سیٹلائٹ امیجری کے ماہر ڈیو شمرلرنے کہاکہ اس میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ سیٹلائٹ بڑے علاقوں یا جنگی جہازوں کو دیکھ سکتا ہے جیسا کہ شمالی کوریا نے دعوی کیا، ایک درمیانے درجے کا ریزولوشن کیمرہ بھی پیانگ یانگ کو یہ صلاحیت فراہم کر سکتا ہے۔

لیکن وہ تصاویر کتنی مفید ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ انہیں کس چیز کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔شمرلر نے کہا کہ کسی مقصد میں کارآمد ہونے کے لیے شمالی کوریا کے درمیانے درجے کے ریزولوشن سیٹلائٹس کو کلیدی جگہوں سے بار بار گزرنے کی اجازت حاصل کرنی ہوگی اور اس کیلئے مزید کئی لانچ کرنے کی ضرورت ہوگی، اور شمالی کوریا کی خلائی ایجنسی یہی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان کے لیے صفر سے کسی چیز کی طرف جانا ایک بڑی چھلانگ ہے، لیکن جب تک ہم ان تصاویر کو نہیں دیکھ سکتے جو وہ جمع کر رہے ہیں، ہم اس کے استعمال کے معاملات پر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔شمالی کوریا کی نیوز ایجنسی نے کہا کہ کِم نے امریکی مغربی بحرالکاہل کے علاقے گوام میں اینڈرسن ایئر فورس بیس اور نورفولک اور نیوپورٹ میں ایک امریکی شپ یارڈ اور ایئربیس کی سیٹلائٹ تصاویر کا بھی معائنہ کیا، جہاں چار جوہری طاقت سے چلنے والے طیارہ بردار بحری جہاز اور ایک برطانوی طیارہ بردار جہاز دیکھا گیا تھا۔