نواز شریف کے خلاف پاناما کیس تحقیقات پر ایک ارب سے زائد خرچ ہونے کا انکشاف

وفاقی حکومت نے گزشتہ اٹھ برس میں 50 بڑے کرپشن کیسز کی تحقیقات پر لگ بھگ چھ ارب روپے خرچ کیے

Danish Ahmad Ansari دانش احمد انصاری بدھ 29 نومبر 2023 23:13

نواز شریف کے خلاف پاناما کیس تحقیقات پر ایک ارب سے زائد خرچ ہونے کا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 29 نومبر2023ء) 2017 سے آج نواز شریف کی بریت تک پاناما کیس تحقیقات پر وفاقی حکومت کے تقریبا ایک ارب سے زائد کے اخراجات ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے مطابق وفاقی حکومت نے گزشتہ اٹھ برس میں 50 بڑے کرپشن کیسز کی تحقیقات پر لگ بھگ چھ ارب روپے خرچ کیے۔ لیکن ایف ائی اے، مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں، نیب، ایسٹ ریکوری یونٹ اور غیرملکی فرم کی خدمات ان اٹھ سالوں میں کسی بڑے کو سزا دلوا نہ سکیں، جبکہ کسی قسم کی کوئی ریکوری بھی نہ کی جا سکی۔

ایسٹ ریکوری یونٹ اور نیب کی ٹیموں نے بیس کروڑ روپےکے سرکاری خرچ پر امریکہ ،برطانیہ، یو اے ای ،چین اور سوئٹزرلینڈ کے دورے کیے لیکن کامیابی نہیں ملی۔ 50 ہائی پروفائل کیسز میں نامزد 80 فیصد ملزمان نے ضمانت حاصل کرلی، انکے کیس ختم ہوگئے، جبکہ 5 فیصد بری بھی ہوگئے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب نیب نے 55 فیصد بڑی مچھلیوں کے خلاف انکوائریاں بھی بند کردیں۔

نیب نے مجموعی طور پر اس اٹھ سال میں 27 ارب روپے خرچ کیے، جب کہ نیب کی دستاویزات کیمطابق ان میگا کرپشن میں ملوث ہائی پرفائل شخصیات پر لگ بھگ 900 ارب روپے کا قومی خزانہ کومبینہ نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔ نیب کے نئے قانون کی روشنی میں چند بڑے کیسوں پہ فیصلہ نیب کے خلاف بھی آچکا ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں قائد ن لیگ نواز شریف کو بری کر دیا جب کہ نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی۔

آج کی سماعت میں اپنے دلائل میں ن لیگ کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ مریم نواز اور صفدر پر نواز شریف کی اعانت جرم کا الزام تھا، عدالت نے شریک ملزمان کی اپیل منظور کر کے بری کیا، ہائیکورٹ سے شریک ملزمان کی بریت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کر چکا ہے، نیب آرڈیننس میں بے نامی دار کی تعریف کی گئی۔ اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی، سزا معطلی فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا، سزا معطلی کے فیصلے سے تاثر ملتا تھا کہ جیسے اپیل منظور کر لی گئی بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے امجد پرویز سے مکالمہ کیا کہ ’ہماری معاونت کریں‘، جس پر وکیل ن لیگ نے کہا کہ ’ظاہر کردہ آمدن کے ساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اس کی قیمت کیا تھی؟ نیب کو آمدن اور اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے تقابل پیش کرنا تھا، اس کے بعد یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں، تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ’پراسیکیوشن نے سب سے پہلے کیا ثابت کرنا ہوتا ہے؟‘ امجد پرویز نے جواب دیا کہ پراسیکیوشن نے سب سے پہلے ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کرنا ہوتا ہے، اُس کے بعد پراسیکیوشن نے زیرکفالت اور بےنامی داروں کو ثابت کرنا ہوتا ہے، پراسیکیوشن نے پھر آمدن سے زائد اثاثوں کا تعین کرنا ہوتا ہے، پراسیکیوشن نے ذرائع آمدن کی اثاثوں سے مطابقت دیکھنی ہوتی ہے، نیب میاں نواز شریف پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک بھی ثابت نہیں کر سکا۔