پاکستان کی قومی ایئر لائن کے دو طیاروں کا بیرون ملک پارکنگ کا خرچہ ڈیڑھ کروڑ ڈالرز سے بڑھ گیا،سینیٹر محمد عبدالقادر

لیزنگ کمپنی سے تنازعے پر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے دو طیارے ایئر پورٹ پر کھڑے ہیں یہ پی آئی اے انتظامیہ کی انتہائی سنگین بد انتظامی کا نمونہ ہے، چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے پٹرولیم

ہفتہ 2 دسمبر 2023 19:50

پاکستان کی قومی ایئر لائن کے دو طیاروں کا بیرون ملک پارکنگ کا خرچہ ڈیڑھ ..
کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 02 دسمبر2023ء) چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پیٹرولیم و رسورسز اور سیاسی و اقتصادی امور کے ماہر سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا ہے کہ پاکستان کی قومی ایئر لائن کے دو طیاروں کا بیرون ملک پارکنگ کا خرچہ ڈیڑھ کروڑ ڈالرز سے بڑھ گیا ہے پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن (پی آئی ای) کے دو لیزنگ طیارے آیئر بس 320 ستمبر 2021 سے جکارتہ ایئر پورٹ پر موجود ہیں ایک ماہ کی ائیر پورٹ پارکنگ فیس 6 لاکھ ڈالرز ہے دونوں طیاروں کی ائیر پورٹ پر 26 ماہ کی پارکنگ فیس ایک کروڑ 54 لاکھ ڈالرز ہے۔

یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں سینیٹر عبدالقادر نے کہاکہ لیزنگ کمپنی سے تنازعے پر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے دو طیارے ایئر پورٹ پر کھڑے ہیں یہ پی آئی اے انتظامیہ کی انتہائی سنگین بد انتظامی کا نمونہ ہے پی آئی اے کا اس حوالے سے یہ کہنا کہ لیزنگ کمپنی کے ساتھ مالی معاملات حل کر لئے گئے ہیں اور طیارے جلد واپس آ جائیں گے سراسر غلط ہے یہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ اس کے ادارے بد ترین بد انتظامی کا شکار ہیں اور کوئی شخص ان اداروں کی بد انتظامی کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے نہ اس بد انتظامی کو ختم کرنے پر راضی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب پی آئی اے دنیا کی جدید ترین منافع بخش ایئر لائنز میں سے ایک تھی یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات کی امارات ایئر لائن کو بنانے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ہی تھی اور دنیا ہماری ایئر لائن کی مثالیں دیا کرتے تھے لیکن اب اس ادارے کی بد انتظامی اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ اسکی اندرون و بیرون ملک پروازیں منسوخ ہو جاتی ہیں ائیر لائن کی پاس طیاروں کی پروازوں کے لئے فیول کا انتظام نہیں ہوتا اور پروازیں فیول کی عدم دستیابی کے باعث منسوخ کر دی جاتی ہیں۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ قومی ائر لائن بروقت مینٹینینس نہ کرنے اور دیگر تیکنیکی نقائص دور نہ ہونے کی وجہ سے اربوں روپے سالانہ خسارے میںجانے لگی ہے ایک پھلتا پھولتا ادارہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ادارہ اربوں روپے سالانہ خسارے میں ڈوب رہا ہے لیکن کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا نہ اس تباہی کی وجوہات تک پہنچا گیا جب بھی اس ادارے کی کارکردگی اور معیار کے بارے میں بات کی گئی زبانی جمع خرچ سے سوال کرنے والے کا گھر پورا کر دیا گیا فوری طور پر نہ صرف اس ادارے کی بد انتظامی اور نااہلیت کا تعین کیا جانا چاہئے بلکہ ذمہ داران کو قرار واقعی سزائیں بھی دی جانی چاہئیں تاکہ ادارہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ حاصل کر سکے۔