’تم زور ہو'

DW ڈی ڈبلیو بدھ 20 دسمبر 2023 17:00

’تم زور ہو'

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 دسمبر 2023ء) کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے علی زیدی اور محمد امان تعلیم کی غرض سے کراچی میں کئی برس سے مقیم تھے۔ یہ دونوں سبین محمود کے ادارے ''ٹی ٹو ایف" میں اکثر وبیشتر وہاں مختلف سیشنز اور سرگرمیوں میں شرکت کرتے تھے۔ سبین محمود کو 2015ء میں قتل کردیا گیا تھا۔ یہ دونوں طالب علم ہر مرتبہ سبین کی اس انوکھی کاوش کو سراہتے اور کوئٹہ میں ایسا ہی ایک ادارہ کھولنے کے خواب دیکھتے تھے۔

سبین کی ناگہانی موت نے جہاں اس کے لاکھوں چاہنے والوں کو افسردہ کر دیا وہیں علی اور امان نے 2021ء میں مری آباد میں ''کوئٹہ بک کیفے" کے نام سے ٹی ٹو ایف کی طرز کے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔ اس کیفے کا محرک ''مذہبی ہم آہنگی" ہے۔

(جاری ہے)

آپ کوئٹہ جائیں اور مری آباد کے پر فضا مقام پر کوئٹہ بک کیفے نہ جائیں یہ ممکن نہیں۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں اس کیفے کے باہر سے ہی میز کے ارد گرد کرسیوں پر بیٹھے لڑکے لڑکیاں خوش گپیوں میں مصروف دکھائی دیں گے تو آپ کو خوشگوار حیرانی ضرور ہوگی۔

کیفے میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اس کی ایک دیوار آپ کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔ دیوار پر کوئٹہ میں بولی جانے والے اردو کی سینکڑوں مزیدار اور چٹ پٹی سی عبارتیں لکھی گئی ہیں، جن کے مطلب صرف گردونواح کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً ''کوچرہ ہو گیا‘‘، ''خپ پکڑو‘‘، ''پاٹ مت کرو‘‘، ''سلیمانی چائے‘‘، ''ناجوانی مت کرو‘‘،''آسرا تاوان‘‘، ''غٹ مارنا منع ہے‘‘ یا ''تم زور ہو‘‘ جیسی کئی عبارتیں، دیوار پر بنی تصاویر کے ساتھ نمایاں ہیں۔

عین دروازے کے سامنے کیفے ٹیریا ہے، جہاں چائے، کافی اور جوس کے علاوہ مختلف انواع واقسام کے مخصوص کھانے مثلاً آش اور بوسراخ بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں بھی ہر عمر کے لڑکے لڑکیاں ٹولیوں میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ وائی فائی میسر ہونے کی بنا پر کئی نوجوان اپنے لیپ ٹاپ کھولے کام میں مگن بھی دکھائی دیتے ہیں۔

ساتھ ہی لائبریری ہے جہاں تقریباً 5 ہزار کے لگ بھگ مختلف موضوعات پر کتابیں رکھی گئی ہیں۔

یہاں فرشی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں۔ ایک کمرہ بالائی منزل پر بھی ہے، یہاں بھی ورک شاپس اور سیشنز ہوتے ہیں، جن میں سماجی، ادبی اور معاشی موضوعات پر کھل کر بات چیت کی جاتی ہے۔ خواتین کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہو گا، جسمانی اور نفسیاتی مسائل اور عورتوں کو بااختیار بنانے کے پروگرامز اکثر و بیشتر منعقد کیے جاتے ہیں۔ مختلف ماہر علوم کو یہاں مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ نوجوان نسل کے ذہنوں کی آبیاری کرسکیں۔

علی زیدی نے فرط جذبات سے بھرپور آواز میں بتایا، ''ہمارا مقصد کوئٹہ بک کیفے کو ایک باہمی رواداری اور میل جول کا مرکز بنانا ہے، جہاں مختلف عقائد، فرقہ، قومیت اور نسل کے افراد بنا کسی تعصب کے ہم کلام ہو سکیں جسے یہاں کی زبان میں ''بھنڈار" کرنا کہا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے پرکھوں کے وقت کوئٹہ میں عام چلن تھا، جو حالات کی خرابی کے باعث معدوم ہوتا گیا ہے۔

کوئٹہ بک کیفے کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ ہزارہ کمیونٹی کے علاوہ یہاں آنے والوں کی بڑی اکثریت بلوچ، پٹھان، پنجابی اور مسیحیوں کی بھی ہے۔ علی زیدی اور محمد امان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ملک کے کسی بھی صوبے، شہر اور خطے سے تعلق رکھنے والےکبھی بھی کوئٹہ آئیں تو کوئٹہ بک کیفے کو ضرور رونق بخشیں۔

مری آباد کی پہاڑیوں پر ہزارہ برادری کی ایک بڑی تعداد یہاں کئی دہائیوں میں وقتاً فوقتاً آکر آباد ہوتی رہی ہے۔

فاضل موسوی بھی ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور پچھلی کئی دہائیوں سے یہیں مقیم ہیں۔ انہوں نے غالباً بیس سال قبل ''اسکیچ کلب‘‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا ادارہ تشکیل دیا، جہاں آرٹ کے ہر میڈیم میں پینٹنگز کرنا سکھائی جاتی ہیں۔

اسکیچ کلب بھی ایک پہاڑی پر واقع خوبصورت سا اسٹوڈیو ہے، جس کے اطراف فطرت کا خوبصورت نظارہ آنکھوں کوبھلا لگتا ہے جبکہ کوئٹہ کی سرد ہوائیں ذہن کو تازگی بخشتی ہیں۔

آغا فاضل موسوی ایک جہاندیدہ اور وضع دار فنکار ہیں اور ان کے اسٹوڈیو میں ہر عمر کے لڑکے لڑکیاں آرٹ کی ابتدائی تعلیم یا اپنے فن کو مزید نکھارنے کے لیے آتے ہیں۔ پورے اسٹوڈیو کی دیواریں واٹر کلر، آئل پینٹ، ایکریلک اور چارکول سے بنی تصاویر سے مزین ہیں۔

آغاموسوی اپنی پینٹنگز دکھاتے ہوئے اپنے دل کی بات کہتے ہوئے کہا، ''ہم فنکار لوگ ہیں اور یہی ہمارا روزگار ہے کہ اپنی پینٹنگز کی ملک کے دیگر شہروں میں نمائش کریں اور انہیں فروخت کریں۔

لیکن اتنی محنت کے باوجود ایک آرٹسٹ کو وہ پذیرائی نہیں مل پاتی، جس کے وہ مستحق ہیں۔‘‘

زلیخا احمد جو بلوچستان یونیورسٹی میں آرٹ کی فائنل ایئر کی طالبہ ہے اور آج کل اپنے تھیسس کےکام میں جدت پیدا کرنے کے واسطے فاضل موسوی سے مدد لینے ان کے اسٹوڈیو آتی ہے۔ اس نے چارکول پاؤڈر کو اپنا میڈیم چنا ہے اور اس کا تھیم آرٹ میں ڈارکنیس اینڈ اٹس شاک ویلیو ہے۔

زلیخا نے چارکول پاؤڈر سے کالے ہوئے ہاتھوں کو صاف کرتے ہوئے بتایا کہ چارکول کو عام طور میں صرف پینسل میڈیم میں ہی استعمال کیا جاتا ہے، ''جبکہ میں نے 5 بائی 27 کے بڑے اسکیل پر"فیس موزیک” کے نام سے پینٹنگ بنائی، جس میں، میں نے آٹھ چہروں کو مصنوعی خوبصورتی کے لوازمات کے بجائے چارکول کا استعمال کیا۔‘‘

آغا فاضلی نے انکساری سے بتایا کہ میں صرف بچوں میں آرٹ سے محبت کرنا سکھاتا ہوں۔

باقی تمام محنت اور لگن خود ان کی اپنی ہوتی ہے۔ ان کے شاگردوں میں کوئٹہ میں بسنے والے مختلف قوم، نسل اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ آغا فاضل اس طرح نوجوانوں میں غیر محسوس طریقے سے رواداری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی ترویح بھی بخوبی کر رہے ہیں۔

آپ کو کوئٹہ میں اگر صفائی، نفاست اور نظم وضبط دیکھنا مقصود ہو تو وہ ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد میں ہی نظر آئے گا کہ دیگرعلاقوں میں ایسی صفائی ستھرائی عنقا ہے۔

کوئٹہ جیسے فضائی آلودگی کا شکار شہر میں ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد کی سڑکیں، دکانیں چمکتی ہوئی جبکہ وہاں بنے گھر اور اس کے مکین صاف ستھرے دکھائی دیتے ہیں۔ حتی کہ ان کے زیر استمعال موٹر سائیکلیں اور کاریں تک نئی معلوم ہوتی ہیں کہ ابھی شوروم سے نکالی ہوں۔

علی زیدی، محمد امان اور آغا فاضل موسوی جیسے افراد ہزارہ کمیونٹی کا ہی نہیں بلوچستان اور اس ملک کا بھی اثاثہ ہیں۔

پچھلے کئی سال سے ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے پر ہزاروں افراد کو مذہبی منافرت میں بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کوئٹہ کی یخ بستہ سردی میں جنازوں کے ہمراہ ہزارہ برادری نے کئی دن دھرنا جاری رکھا لیکن ریاست نے ہمیشہ ان کے ساتھ سوتیلے پن کا مظاہرہ کیا۔

زیادتی چاہے بلوچ قوم کے ساتھ ہو یا ہزارہ برادری یا پاکستان میں بسنے والی کسی بھی قوم یا فرقے کے ماننے والے کے ساتھ، کہلائے گی ریاست کی ناکامی ہی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔