اوسط پیداوار میں صرف دس فیصد اضافے سے گندم میں خودکفالت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ، ڈاکٹر اقرار احمد خان

منگل 20 فروری 2024 12:34

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 فروری2024ء) جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان نے کہا کہ ترقی پسند کسانوں اور روایتی کسانوں کی پیداواری صلاحیت میں واضح فرق موجود ہے اسی لئے گندم کی فی ایکڑ انتہائی کم پیداوار حاصل ہورہی ہے اورملک کو ہر سال گندم درآمد کرناپڑتی ہے حالانکہ اوسط پیداوار میں صرف دس فیصد اضافے سے گندم میں خودکفالت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جس کیلئے ہمیں جدید رجحانات اور موسمیاتی لچکدار اقسام کو فروغ دینا ہوگاجبکہ اس ضمن میں زرعی یونیورسٹی میں واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی امریکہ کے تعاون سے ماحولیاتی لچکدار گندم کی اقسام متعارف کروائی جا رہی ہیں جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا باآسانی مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں تاہم غذائی ضروریات کو پورا اور غذائیت کے بحران سے نبردآزما ہونے کیلئے موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی زیادہ پیداوار کی حامل اور غذائیت سے بھرپور اقسام متعارف کروانے اوران کی کاشت کو فروغ دینے کیلئے مربوط کاوشیں عمل میں لانا ہوں گی تاکہ بدلتی ہوئی آب و ہوااور بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے خوراک اور غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس اور سنٹر فار ایڈوانسڈ سٹڈیز کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس برائے ”زیادہ پیداواریت کیلئے جدید ٹیکنالوجی“ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔ ویٹ جینیٹکس ریسورس سنٹر کینساس سٹیٹ یونیورسٹی امریکہ کے بانی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر بکرم ایس گل نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے بریڈنگ میں ٹھوس تحقیقاتی عمل کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی اقسام پیدا کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ مرکز کا جین بینک5000سے زیادہ گندم کے جینیاتی خزانے کو محفوظ کئے ہوئے ہے جو کہ محققین کیلئے باآسانی دستیاب ہے تاکہ وہ اختراعی سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی اقسام کے حصول میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی امریکہ کے معروف سائنسدان ڈاکٹر کلوندن سنگھ گل نے کہا کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ گندم کی پیداوار کا ریکارڈ 70ٹن پر ہیکٹر ہے جبکہ دنیا کی اوسط پیداوار صرف 3ٹن تک محدود ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاول کی زیادہ سے زیادہ پیداوار 22ٹن پرہیکٹر ہے جبکہ اوسط پیداوار صرف 4ٹن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پراجیکٹ میں گرمی کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی گندم کی زیادہ پیداوار میں کئی اقسام متعارف کروائی گئی ہیں جبکہ ان کا فیلڈ ٹرائل انڈیا، نیپال، پاکستان اور مصر میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی پراجیکٹ کے تحت زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں نئی اقسام کا فیلڈ ٹرائل جاری ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

سڈنی یونیورسٹی آسٹریلیا کے سائنسدان ڈاکٹر رچرڈ ٹرتھوان نے کہا کہ گندم کی ہائی بریڈ اقسام سے زیادہ پیداوار کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گندم کی جینیٹک کے حوالے سے متعدد تحقیقاتی امور سرانجام دے چکے ہیں۔ میلبورن یونیورسٹی آسٹریلیا سے پروفیسر ڈاکٹر ایلیکس جانسن نے کہا کہ دنیا میں آئرن کی کمی کی وجہ سے دو ارب افراد متاتر ہو رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ زنک اور دیگر ضروری اجزاء کی بھی بڑے پیمانے پر کمی پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ساتھ مل کر جینیاتی موڈیفائیڈ آئرن، بائیوفائیڈ گندم پر مشترکہ کاوشیں عمل میں لا رہے ہیں۔ ڈائریکٹر پروگرام اینڈ پراجیکٹس ڈیپارٹمنٹ اسلامی آرگنائزیشن فار فوڈ سکیورٹی ڈاکٹر ذوالفقار علی نے کہا کہ او آئی سی کے 57 ممالک میں سے صرف 9 غذائی استحکام کے اہداف پورے کر رہے ہیں جبکہ باقی ممالک غذائی کمی کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2019میں او آئی سی ممالک کو 65ارب ڈالر کے غذائی خسارے کا سامنا تھاجبکہ 300ارب ڈالر خوراک، فوڈ پروسیسنگ اور دیگر عوامل کی عدم دستیابی کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے۔ پرووائس چانسلر جامعہ زرعیہ ڈاکٹر محمد سرور خاں نے کہا کہ ملک کو درپیش زرعی چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے جدید رحجانات اور ٹھوس تحقیقاتی عمل کو پروان چڑھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی اس معاملے میں تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔ اس موقع پر تاجکستان کے ڈاکٹر نذیر، چیئرمین پلانٹ بریڈنگ اینڈ جنیٹکس ڈاکٹر عظیم اقبال خاں، ڈاکٹر رضوانہ مقبول، ڈاکٹر راحیلہ رحمان، ڈائریکٹر ریسرچ ڈاکٹر جعفر جسکانی، پرنسپل آفیسر تعلقات عامہ ڈاکٹر جلال عارف و دیگر بھی موجود تھے۔