صرف 14.7 روپے فی کلوواٹ آورکے ٹیرف کے باوجود ونڈ پاور پراجیکٹس سے بجلی کیوں کم لی جا رہی ہے ، عاطف اکرام شیخ

منگل 5 مارچ 2024 21:06

صرف 14.7 روپے فی کلوواٹ آورکے ٹیرف کے باوجود ونڈ پاور پراجیکٹس سے بجلی ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 مارچ2024ء) صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ رینیوایبل انرجی پالیسی 2006 پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے ؛کیونکہ اب بھی مہنگے اور متروک بجلی کے منصوبوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ان مہنگے پا ور پلانٹس سے بجلی کی خریداری کی کوئی معاشی منطق بھی نہیں بنتی ہے۔

معاشی مشکلا ت اور جمود کے اس دور میں بھی فرنس آئل کی درآمد کے ذریعے مہنگے پاور پلانٹس سے قومی گرڈ کے لیے بجلی خریدنا بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں ؛ بیلنس آف پیمنٹ (BoP) کی بگڑتی صورتحال اور زرمبادلہ کے ذخائر (FER) پر دبائو کو مزید بڑھائے گا۔ صدرایف پی سی سی آئی نے کہا ہے کہ یہ رجحان نہ صرف توانائی کے شعبے میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کی حوصلہ شکنی ہے ؛بلکہ، ساتھ ہی ساتھ موجودہ ونڈ پاور پلانٹس (WPP) کو بھی متعدد طریقوں سے مالی نقصانات پہنچائے گا: (i) سرمایہ کاروں کو ریٹرن آف انوسیمنٹ (ROI) میں کمی (ii) قومی گرڈ کی طرف سے ونڈپائور پلانٹس سے کٹوتی اور ٹیک آف کی کمی آپریشنل نقصانات کا سبب بن رہی ہے (iii) مستقبل کی سرمایہ کاری،جوا ئنٹ وینچرز (JVs )اور توسیعی منصوبے خطرے میں ہیں۔

(جاری ہے)

عاطف اکرام شیخ نے زور دیا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) نے انرجی کو ان کے پانچ فوکس ایریاز میں سے ایک بنایا ہے اور اس سلسلے میں سر مایہ کاروں کے لیے فعال، حوصلہ افزاء اور حفاظتی ماحول کا فقدان SIFC کے مقاصدکے لیے نقصان دہ ہے ؛ جس کے اوپر ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول نجی شعبے کا اتفاق ہے۔ایف پی سی سی آئی کی سنٹرل سٹینڈنگ کمیٹی برائے رینیوایبل انرجی کے کنوینر فواد جاوید نے کہا کہ پاکستان میں ونڈ پاور کے ذریعے پیدا ہونے والی سستی،کلین اور گرین قابل تجدید توانائی 14.7 روپے فی کلو واٹ آورکے مسابقتی ٹیرف پر بجلی فراہم کرتی ہے۔

لیکن اس کے باوجود ملک میںبجلی کے صارفین RLNG، RFO اور کوئلے سے چلنے والے مہنگے پاور پلانٹس کے بجلی کے نرخ ادا کر رہے ہیں۔ فواد جاوید نے بتایا کہ جھمپیر ونڈ کوریڈور میں 2021 سے لے کر اب تک 12 ونڈ پاور پراجیکٹس شروع کیے گئے ہیں؛جن کی کل پیداوار 610 میگاواٹ ہے۔لیکن ،قابل تجدید توانائی کی پالیسی RE پالیسی 2006 کے تحت فراہم کردہ یقین دہانیوں کے باوجود ان پلانٹس کو قومی گرڈ میں ان کی کٹوتی کی وجہ سے غیر منصفانہ سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ پالیسی نے ان پلا نٹس کی درجہ بندی لازمی طور پر چلنے والی(must-run) پلانٹس کے طور پر کی ہے۔ اس تضاد کی وجہ سے سستی بجلی کا نقصان ہوا ہی؛ کیونکہ قومی گرڈ اور بجلی کے صارفین سستی صاف توانائی سے محروم ہیں۔ جس سے بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور مہنگے ایندھن پر انحصار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ فواد جاوید نے یہ بھی نشاندہی کی کہ پاکستان کے پائیدار توانائی کے اہداف کی تکمیل پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔

جبکہ ملک کا 2030 تک دھویں کے اخراج میں 50 فیصد کمی کا ہدف صاف توانائی کی توسیع پر منحصر ہے۔ تاہم، ونڈ پاور کے اہداف اور قابل تجدید ذرائع کو 2030 تک قومی پاور جنریشن باسکٹ کے 30 فیصد تک بڑھانے کوونڈ پاور سے بجلی کی خریداری میں کٹوتی کی وجہ سے حاصل نہیں کیا جاسکے گا؛ جو کہ متبادل اور قابل تجدید توانائی کی پالیسی (ARE پالیسی 2019) کے تحت طے کیا گیا ہے۔

فواد جاوید نے موجودہ آپریشنل ونڈ پراجیکٹس سے فوری طور پر بجلی لینے اور ان کو ترجیح دینے پر زور دیا؛ کیونکہ ان ونڈ پاورپراجیکٹس میں سر مایہ کاری RE پالیسی 2006 کے تحت ہی ہوئی تھی اور موجودہ EPAs بھی پورے کیے جا سکیں۔ نائب صدر ایف پی سی سی آئی اور چیئرمین APTMA آصف انعام نے وضاحت کی کہ جنریشن صلاحیت کے کم استعمال کے سبب ہونے والے برے اثرات کو دور کیا جانا چاہیی؛ کیونکہ ونڈ پاور پلانٹس کی صلاحیت کا کیپسٹی فیکٹر تقریباً 38 فیصد ہے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک بار جب یہ صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے تو پراجیکٹ ٹیرف میں بہت نمایاں کمی ہو جاتی ہی؛ جو کہ گرڈ کو غیر معمولی طور پر سستی بجلی دے سکتی ہے۔

یعنی کہ ونڈ پاور پلا نٹس سے 38 فیصد کیپسٹی سے زیادہ بجلی موثر ٹیرف کے صرف 5 فیصد سے شروع ہو گی؛ یعنی 0.75 فی کلو واٹ آور تک محدو د ہو جائے گی۔