بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کی نقل وحرکت محفوظ بنانے کے لیے امریکا کے ایرانی حکام سے خفیہ مذکرات

مذاکرات جنوری میں عمان میں ہوئے امریکی کے مشرق وسطیٰ کے مشیر بریٹ میک گرک جبکہ ایرانی نائب وزیر خارجہ علی باقری کنی نے سربراہی کی.فنانشل ٹائمزکی پورٹ میں انکشاف

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 14 مارچ 2024 15:13

بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کی نقل وحرکت محفوظ بنانے کے لیے امریکا کے ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 مارچ۔2024 ) بحیرہ احمر میں اپنے بحری جہازوں کی نقل وحرکت محفوظ بنانے کے لیے امریکا نے ایرانی حکام سے خفیہ مذکرات کیئے ہیں یمن میں حوثی ملیشیا کی جانب بحیرہ احمر میں تجارتی بحری جہازوں پر حملوں کے بعدامریکا‘برطانیہ اور دیگر مغربی اتحادی متبادل روٹ اختیار کرنے پر مجبور ہیں تاہم یہ روٹ نہ صرف سفر کے اعتبار سے طویل ہیں بلکہ لاگت کے حوالے سے بھی ناقابل عمل ہیں یمن کے حوثیوں کی جانب سے حملوں میں اب تک 15 تجارتی بحری جہاز متاثر ہوچکے ہیں.

(جاری ہے)

امریکی جریدے’ ’ فنانشل ٹائمز“ نے باخبر ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ امریکی اور ایرانی حکام کے مطابق امریکہ نے اس سال ایران کے ساتھ خفیہ بات چیت کی تھی تاکہ تہران کو یمن کی حوثی تحریک پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں کو روکنے پر قائل کیا جائے. فنانشل ٹائمز کے مطابق حکام نے کہا کہ یہ بالواسطہ مذاکرات تھے اس کے دوران واشنگٹن نے ایران کے جوہری پروگرام میں توسیع کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا یہ مذاکرات جنوری میں عمان میں ہوئے یہ دونوں حریف ملکوں کے درمیان دس ماہ میں پہلی مرتبہ تھے.

امریکی وفد کی سربراہی وائٹ ہاﺅس کے مشرق وسطیٰ کے مشیر بریٹ میک گرک اور ایران کے لیے ان کے خصوصی ایلچی ابرام بالی، ایرانی نائب وزیر خارجہ علی باقری کنی کررہے تھے باقری تہران میں جوہری مذاکرات کار کے طور پر بھی کام کرچکے ہیں ذرائع نے بتایا کہ عمانی حکام نے ایرانی اور امریکی نمائندوں کے درمیان پیغامات پہنچائے جنہوں نے براہ راست بات نہیں کی.

مذاکرات میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح بائیڈن انتظامیہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے بعد مسلح گروپوں کی طرف سے کی شروع کی جانے والی فوجی کارروائیوں کی لہر کو پرسکون کرنے کی کوشش میں اپنے مخالف کے ساتھ فوجی ڈیٹرنس کے ساتھ سفارتی ذرائع استعمال کر رہی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام ایران کے ساتھ بالواسطہ چینل کے قیام کو ایران سے لاحق خطرات کی مکمل رینج پر بات چیت کرنے کے ایک طریقہ کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں یہ بتانا بھی شامل ہے کہ انہیں وسیع تر تنازعے کو روکنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے میک گرک کی شرکت کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور فروری میں ہونا تھا، لیکن اسے اس وقت ملتوی کر دیا گیا جب وہ غزہ میں جنگ کو روکنے اور اسرائیل کے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ کرانے کی امریکی کوششوں میں شامل تھے.

امریکہ اور ایران کے درمیان آخری معلوم مذاکرات گزشتہ مئی میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات تھے امریکی حکام نے تہران پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ حوثیوں کو بحری جہازوں پر حملے کرنے کے لیے ڈرون، میزائل اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کر رہا ہے ایران شمالی یمن پر قابض حوثیوں کی حمایت کو تسلیم کرتا ہے اور ان کے حملوں کو فلسطینیوں کی حمایت کے طور پر جائز قرار دیتا ہے ایران کا دعویٰ ہے کہ حوثی اس کے حکم کے پابند نہیں بلکہ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں فنانشل ٹائمزکے مطابق عمان میں ہونے والے حالیہ خفیہ مذکرات میں فریقین کے درمیان باہمی اعتماد کو قائم کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے جبکہ واشنگٹن نے بحیرہ احمر میں یمن کے حوثیوں کے حملوں کو روکنے کے لیے تہران کی مدد لینے کی کوشش کی ”فنانشل ٹائمز“ نے بتایا ہے کہ بات چیت کا پہلا دور جنوری جبکہ دوسرا فروری میں ہوا ہے امریکا کے مشرق وسطی کے مشیر میک گرک کی حماس اور اسرائیل کے درمیان میں تنازعے میں مصروفیات کی وجہ سے ایران کے ساتھ بات چیت کو حتمی شکل دینے کے لیے واشنگٹن نے ان کے متبادل کو نامزد نہیں کیاواضح رہے کہ حوثی باغیوں نے نومبر سے اب تک بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں تجارتی بحری جہازوں پر 40 سے زیادہ حملے کیے ہیں یمن کے حوثی گروپ کو ایرانی حمایت قراردیا جاتا ہے جو اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتا ہے ‘غزہ کی پٹی میں جنگ کے جواب میں حوثیوں نے اسرائیل کی جانب ڈرون اور میزائل داغے تھے جن میں سے زیادہ تر کو روک لیا گیا 19 نومبر کو حوثیوں نے بحیرہ احمر میں ایک تجارتی جہاز کو ہائی جیک کر لیا اس کے بعد انہوں نے بحری جہازوں پر درجنوں میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں جن میں سے کچھ کوشدید نقصان پہنچا جس کے بعد دنیا کی بڑی شپنگ کمپنیوں نے بحیرہ احمر کا استعمال بند کر دیا جس کے ذریعے سے پندرہ فیصد سے زیادہ عالمی سمندری تجارت گزرتی ہے بحیرہ احمر کے راستہ غیرمحفوظ ہونے کے بعد بحری جہازوں کے لیے جنوبی افریقہ کے گرد ایک طویل متبادل راستہ استعمال کیا جارہا ہے.