سب جھوٹ بولنے آئے ہیں یا کوئی سچ بھی بولے گا، مونال ریسٹورنٹ لیز سے متعلق تمام تفصیلات طلب

عدالت عظمی نے نیشنل پارک میں مونال ریسٹورنٹ کے ساتھ ساتھ دیگر ریسٹورنٹس کی تفصیلات طلب کر لیں سارے لوگ جھوٹ بولنے کے لیے آئے ہیں یا کوئی سچ بھی بولے گا، ریکارڈ فورا وقفے میں پیش کریں ورنہ توہین عدالت کا نوٹس کریں گے، چیف جسٹس

جمعرات 21 مارچ 2024 20:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 مارچ2024ء) سپریم کورٹ نے مونال اور آر وی ایف ڈائریکٹوریٹ کے درمیان معاہدہ، اصل دستاویزات، لیز کی مالیت، اکانٹ میں جمع رقم سمیت نیشنل پارک میں جومود دیگر ریسٹورنٹس کی تفصیلات طلب کر لیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مونال ریسٹورنٹ کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وکیل مخدوم علی، وکیل سلمان اکرم راجا عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ عدالت کا آخری آرڈر کیا تھا پڑھیں، اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھ کرسنایا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا ملٹری اسٹیٹ ڈائریکٹریٹ کی طرف سے کون آیا ہی ملٹری اسٹیٹ افسر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مونال کے ساتھ ملٹری اسٹیٹ ڈائریکٹریٹ کا اوریجنل ایگریمنٹ ریکارڈ کہاں ہی ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سارے لوگ جھوٹ بولنے کے لیے آئے ہیں یا کوئی سچ بھی بولے گا، ریکارڈ فورا وقفے میں پیش کریں ورنہ توہین عدالت کا نوٹس کریں گے۔سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے کہا عدالت مہلت دے ایگریمنٹ کی کاپی پیش کردی جائے گی، سپریم کورٹ فیصلے میں ملکیت کا ذکر تھا وہی ریکارڈ منگوایا، یکم اپریل 1910 کو 8683 ایکڑ آر ایف وی ڈی کو دی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا یکم اپریل کا نوٹیفیکیشن کہاں ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا یہ نوٹیفیکیشن ابھی پاس نہیں، چیف جسٹس نے کہا ہر چیز اسی نوٹی فکیشن سے شروع اور ختم ہوگی، اگر نوٹیفیکیشن ہی نہیں تو پھر آپ کا کیس ختم۔اٹارنی جنرل بولے میں نوٹی فکیشن کی تفصیل ایسے بتا دیتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا ہم ایسی باتوں پر نہیں جاتے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا نیشنل پارک اراضی ملکیت کس کی ہی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ اراضی وفاقی حکومت کی ملکیت ہے، چیف جسٹس نے کہا ریمانٹ، ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ (آر ایف وی ڈی)لیز معاہدہ ہونے پر چیک کس کو دیا گیا نمائندہ آر وی ایف ڈی نے بتایا چیک آر ایف وی ڈی کے اکانٹ کے نام کا دیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا آر وی ایف ڈی لیز ایگریمنٹ نہیں کرسکتی تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا اچھا یا برا معاہدہ چھوڑیں آر وی ایف ڈی پیسے کیسے لے سکتی ہے وکیل مونال نے بتایا آر وی ایف ڈی نے مونال سے معاہدے کے لیے خط لکھا، آر وی ایف ڈی کے خط پر سی ڈی اے کو 8 خطوط لکھے کوئی جواب نہیں آیانجی ٹی وی کے مطابق۔چیف جسٹس نے کہاکہ اب آرمی نے ڈائریکٹوریٹ بنا لیا ہے، کیا غیر قانونی ادارہ ایسا کوئی معاہدہ کرسکتا تھا، اٹارنی جنرل بولے مونال سے معاہدہ کرنا درست نہیں تھا۔

عدالت نے مونال اور آر وی ایف ڈائریکٹوریٹ کے درمیان معاہدہ اور اصل دستاویزات ایک ہفتے میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت نے نیشنل پارک میں مونال ریسٹورنٹ کے ساتھ ساتھ دیگر ریسٹورنٹس کی تفصیلات طلب کر لیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ نیشنل پارک ایریا میں قائم تمام ریسٹورنٹس کی مکمل تفصیلات ایک ماہ میں فراہم کی جائے، سپریم کورٹ آفس تفصیلات آنے کے بعد ریسٹورنٹس کو نوٹس جاری کرے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔