پاکستانی وفد دوطرفہ تجارتی چیلنجز پر بات چیت کیلئے (آج) کابل کا دورہ کرے گا

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک طویل مدت تک تنزلی کا رجحان رہا ہے، محمد زبیر موتی والا

اتوار 24 مارچ 2024 13:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 مارچ2024ء) پاکستان کی وزارت تجارت دو طرفہ تجارتی امور پر تبادلہ خیال کرنے اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر ٹرانسپورٹرز اور تاجروں کو درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مشترکہ اقدامات کرنے کیلئے ایک وفد (آج) پیر کو کابل بھیجنے کیلئے تیار ہوگئی ۔عرب میڈیا کے مطابق ملکی برآمدات کو فروغ دینے والے ادارے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفسر محمد زبیر موتی والا نے بتایا کہ پاکستان کی وزارت تجارت کے سیکریٹری کامرس کی سربراہی میں ایک سینئر سطح کا وفد 25 مارچ کو کابل کا دورہ کرے گا تاکہ اعتماد کو فروغ دینے اور دونوں پڑوسیوں کے درمیان ہموار تجارتی بہاؤ کو یقینی بنانے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے نشاندہی کی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک طویل مدت تک تنزلی کا رجحان رہا ہے اور پاکستان نے گزشتہ ہفتے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے۔انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعاون کا باعث بنے گا، دونوں ممالک کو تجارت کو آسان بنانے، پابندیوں کو کم کرنے اور سرحدی مقامات پر ٹرانزٹ کو آسان بنانے کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

افغان وزارت تجارت کے ترجمان اخوندزادہ عبدالسلام جواد نے پاکستانی وفد کے طے شدہ دورے کی تصدیق کرتے ہوئے اسلام آباد پر دو طرفہ تجارتی معاملات کو پیچیدہ بنانے کا الزام لگایا۔انہوں نے کہا مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے سامان کے ٹرکوں میں غیر ضروری تاخیر، بھاری کنٹینرز کی آمدورفت کے لیے دستاویزات کی تیاری میں سرخ فیتہ اور افغان ٹرکوں کے لیے پاکستانی ویزے کے حصول کے لیے اسلام آباد کے تازہ ترین قوانین پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

اخوندزادہ عبدالسلام جواد نے کہا کہ ایک سال پہلے پاکستان سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 1500 سے 2000 ٹرک افغانستان میں داخل ہوتے تھے تاہم پاکستان کے سرحدی اور تجارتی حکام کی جانب سے غیر ضروری پابندیوں نے نئے قوانین متعارف کروا کر کاروبار کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے، جس سے پاکستانی ٹرکوں کی تعداد تقریباً 700 تک ہوگئی ہے۔ننگرہار چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے رکن حاجی عثمان نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سلامتی کے مسائل بھی ان کے درمیان تجارت کے ہموار بہاؤ میں رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے بیانات ہمیشہ متضاد ہوتے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ صورتحال میں دو طرفہ تجارت آگے بڑھ سکتی ہے، سب سے پہلے، دونوں ممالک کو اعتماد بحال کرنے اور تجارت کو بڑھانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔طورخم بارڈر کراسنگ پر پاکستان کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کے صدر ایمل خان نے کہا کہ کسٹم ڈپارٹمنٹ کے علاوہ دیگر اداروں کی مداخلت کی وجہ سے کاروبار اور نقل و حرکت تقریباً ختم ہوگئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ محکمہ کسٹم کے علاوہ، حکام کو باقی محکموں کو سرحدی علاقوں میں کاروبار کے کام میں مداخلت کرنے پر پابندی لگانی چاہیے۔ایمل خان نے کہا کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ پاکستانی تجارتی وفد افغان حکام کے ساتھ تجارت کے طریقہ کار پر بات کرنا چاہتا ہے تاکہ سرحد کے دونوں جانب کاروبار کی صورتحال کو آسان بنایا جا سکے۔یاد رہے کہ متواتر سرحدی جھڑپوں اور مشترکہ سرحد کے ساتھ اہم کراسنگ پوائنٹس کی بندش کے درمیان دونوں پڑوسی ریاستوں کے درمیان تجارتی تعلقات نمایاں طور پر بگڑ گئے ہیں، ان رکاوٹوں نے نہ صرف سفارتی تعلقات کو کشیدہ کیا ہے بلکہ دونوں اطراف کو بھاری اقتصادی نقصان پہنچایا ہے اور خاص طور پر تجارت پر منحصر برادری اور صنعتوں کو متاثر کیا ہے۔