جنرل ر باجوہ اور فیض کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا کیس بغیر کارروائی ملتوی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے شہری کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی

Sajid Ali ساجد علی پیر 25 مارچ 2024 10:51

جنرل ر باجوہ اور فیض کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا کیس بغیر کارروائی ملتوی
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 مارچ 2024ء ) شہری نے جنرل ر قمر جاوید باجوہ اور جنرل ر فیض حمید کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست میں شہری نے کیس بغیر کاروائی ملتوی کرنے کی استدعا کردی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے جنرل ریٹائرڈ قمیر جاوید باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کیخلاف مقدمہ درج کرنے کے کیس کی سماعت کی، جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کی جانب سے وکیل عمر اعجاز گیلانی عدالت کے سامنے پیش ہوئے، اس موقع پر جنرل ر باجوہ اور جنرل ر فیض کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست میں شہری نے کیس بغیر کارروائی ملتوی کرنے کی استدعا کردی، جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

(جاری ہے)

بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد قانونی رکاوٹ توڑنے اور غلط بیانی کا کیس آج سماعت کیلئے مقرر کیا تھا، عدالت کی جانب سے ایف آئی اے میں مقدمہ اندراج کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کی گئی۔ اس ضمن میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے، قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کو نوٹسز جاری کیے تھے، اس کے علاوہ عدالت کی جانب سے صحافی جاوید چوہدری اور شاہد میتلا اور پیمرا کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے، ریٹائرمنٹ کے بعد قانونی رکاوٹ توڑنے اور غلط بیانی کے کیس میں شہری نے قمر جاوید باجوہ ، فیض حمید اور دیگر کے خلاف مقدمہ اندراج کی درخواست دی ہوئی ہے۔

دوسری طرف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ سے متعلق پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء حنیف عباسی نے نام لیے بغیر وزیر دفاع خواجہ آصف پر تنقید کردی، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی کہتا تھا ’مجھے تو واٹس ایپ پر جتوایا گیا اب وہ اُنہی کے خلاف بات کرتا ہے، اس سے قد نہیں بڑھے گا۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے حنیف عباسی نے کہا کہ اب مولانا فضل الرحمان اور ہماری پارٹی کے ایک لیڈر باجوہ پر تنقید کر رہے ہیں، جب کہ پہلے کہتے تھے باجوہ نے واٹس ایپ پر الیکشن جتوا دیا، اخلاقی جرات کرتے تو اس وقت بولتے جب وہ عہدے پر تھے، مجھے تو اس وقت زیادہ تکلیف ہوئی تھی لیکن میں اس وقت نہیں بولا تو اب کیوں بولوں۔