تونس، مقتول سیاستدان شکری بلعید کے کیس میں چار مجرموں کو سزائے موت ، دو کو عمر قید

جمعرات 28 مارچ 2024 12:54

تونس سٹی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مارچ2024ء) تونس کی ایک عدالت نے 11 سال قبل ہونے والے سیاست دان شکری بلعید کے قتل کے الزام میں چار افراد کو سزائے موت اور دو کو عمر قید کی سزا سنائی، یہ ملک میں کئی دہائیوں میں پہلا سیاسی قتل تھا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انہیں چھ فروری 2013 کو تونس کے دارالحکومت کے صوبہ آریانہ میں ان کے گھر کے سامنے چار گولیاں مار کے قتل کر دیا گیا۔

ان کے قتل سے تونس کے سیاسی طبقے میں شدید بھونچال آگیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم حمادی جبالی مستعفی ہو گئے۔شکری بلعید ، ایک بائیں بازو کے سیاست دان، اسلام پسند النہضہ پارٹی کے سخت ناقد تھے، انہوں نے پارٹی پر سیکولرز کے خلاف انتہا پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے تشدد پر آنکھیں بند کرنے کا الزام لگایا۔

(جاری ہے)

انہیں بندوق برداروں نے کار میں گولی مار کر ہلاک کیا۔

ان کے قتل پر انگلی انتہاپسند سلفیوں، خاص طور پر انصار الشریعہ تنظیم کی طرف اٹھائی گئی، جس نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قتل کرنے والے معزول صدر زین العابدین بن علی کی سیاسی پولیس کی انٹیلی جنس سروسز کی باقیات تھے تاکہ ملک کو افراتفری اور انتشار میں ڈال کر احتساب سے بچا جا سکے۔تونس کے وزیر اعظم نے 24 جولائی 2013 کو اعلان کیا کہ سکیورٹی حکام قتل میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، اور چار اگست 2013 کو تصدیق کی کہ انہوں نے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔

دسمبر 2010 میں رونما ہونے والے انقلاب کے بعد شکری بلعید کی میڈیا میں موجودگی میں اضافہ ہوا تھا۔ وہ آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے بعد تیونس پر حکومت کرنے والے اتحاد پر کڑی تنقید کرتے تھے۔ ان کی تنقید بنیادی طور پر النہضہ تحریک پر زیادہ تھی۔ ان کا الزام تھا کہ تحریک عبوری دور کی قیادت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اداروں اور سیاسی منظر نامے پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اس نے شدت پسندوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے پر بھی تنقید کی۔ پانچ فروری 2013 کو ایک چینل پر اپنی آخری ٹیلی ویژن شرکت میں، انہوں نے اتحاد پر سیاسی قتل کے لیے قانون سازی کا الزام لگایا تھا۔