اسرائیلی لازمی فوجی خدمات کیس کی سماعت میں لمبے التوا کے درخواست

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ملک کی اعلی ترین عدالت میں ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی ،رپورٹ

جمعہ 29 مارچ 2024 12:30

تل ابیب(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 مارچ2024ء) اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ملک کی اعلی ترین عدالت میں زیر سماعت لازمی فوجی خدمات کیس کی سماعت کو لمبے عرصے کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یہ التوا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ملک کی مین سٹریم جماعتوں نے انتہائی کٹر مذہبی یہودیوں کو فوج میں لازمی خدمات کے قانون سے استثنا دلوانے کی یاہو حکومت کی کوششوں کو غیر قومی سوچ اور امتیازی کوشش قرار دے کر اس کا مقابلہ کرنے کا اعلان کر دیا ۔

نیتن یاہو کی جماعت کو انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے ساتھ قائم اپنی حکومت کو بچانے کے لیے جہاں انتہائی کٹر مذہبی طبقے کے یہودیوں کو فوج میں لڑنے سے بچانا ہے ضروری ہے کہ انتہا پسند جماعتیں اپنے پیاروں کو کسی جنگ میں جھونکنے کو تیار نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

وہیں نیتن یاہو کو اپوزیشن کا بھی خوف ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک کھڑی کر سکتی ہیں۔ کیونکہ عام سیایسی جماعتوں کے حامی ان مذہبی انتہا پسند قسم کے یہودیوں کو ریلیف دے کر جنگ کے کھاتے میں صرف اپنے بچے مروانے کو تیار نہیں ہیں۔

صورت حال نے نیتن یاہو کے لیے بڑی مشکل پیدا کر دی ۔ اگر اس استثنا دلوانے کے معاملے میں انتہا پسند اتحادیوں کو ساتھ دیتے ہیں تو اپوزیشن نیتن یاہو کی غیر مقبول ہو چکی حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائے گی۔ اور حکومت کو جلد گھر جانا پڑ سکتا ہے۔ بصورت دیگر ،اتحادیوں کی طرف سے حکومت کے اندر سے عدم تعاون کا خطرہ ہے۔واضح رہے اسرائیلی قانون کے مطابق ہر نوجوان مرد کو کم ازکم تین سال فوج میں لازمی خدمات دینا ہوتی ہیں اور ہر اسرائیلی عورت کو کم از کم دو سال تک فوج میں خدمات انجام دینا ہوتی ہیں۔

انتہا پسندی میں کٹر مذہبی نوعیت کے یہودیوں کی آبادی اس وقت ملکی آبادی کا 13 فیصد ہے۔ تاہم ان کی آبادی میں اضافہ دوسری تمام کمیونیٹیز کے مقابلے میں تیز رفتار ہے۔ اگر ان کی آبادی کے اضافے کی رفتار اسی طرح جاری رہی تو 2035 تک یہ کٹر انتہاپسند مذہبی کل اسرائیلی آبادی کو 19 فیصد ہو جائیں گے۔اسرائیلی حکام کا اندازہ ہے کہ اس وقت جاری جنگ کی وجہ سے پانچ فیصد اسرائیلی آبادی براہ راست جنگ میں شامل ہے۔

اس میں سے ایک حصہ لبنانی سرحد پر بھی تعینات کیا گیا ہے۔ کٹر مذہبی اور انتہا پسند یہودی فلسطینیوں کے خلاف جنگ کے بھی کٹر حامی ہیں۔ نیز جن جماعتوں کے حق میں یہ ووٹ استعمال کرتے ہیں وہ بھی انتہا پسند مذہبی جماعتیں ہیں۔تاہم ان کی کوشش ہے کہ یہ یہودی مدرسوں میں بیٹھے مذہبی تعلیم حاصل کریں اور مذہبی قیادت پر فائز رہیں مگر لڑنا کسی اور کو پڑے۔

اسرائیل میں انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے اقتدار میں آتے رہنے کی وجہ سے انہیں یہ استثنا حاصل رہا ہے مگر اسرائیلی سپریم کورٹ نے 2018 میں اس استثنا کو امتیازی قانون قرار دے کر ختم کر دیا تھا۔ جس کے خلاف اپیل زیر سماعت ہے۔اس سلسلے میں پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہ بنا سکی جو ان کٹر قسم کے مذہبی یہودیوں کے لیے کام آجاتا ۔ حکومت کی طرف سے عارضی بندوبست 31 مارچ کو ختم ہو جائے گا۔

مگر اپوزیشن کے علاوہ اسرائیل وزیر دفاع اور بعض دوسرے وزیر بھی سمجھتے ہیں کہ امن سب کے لیے ہے تو جنگ بھی سبب کے لیے ہونی چاہیے۔ اس پس منظر میں مقدمہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔نیتن یاہو نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ اس حساس معاملے پر سماعت التوا میں ڈال دی جائے کہ حکومت اس وقت جنگی امور میں پھنسی ہوئی ہے۔ حماس کے خلاف جنگ فیصلہ کن موڑ پر پہنچی ہوئی ہے اس لیے حکومت کی ساری توجہ جنگ پر مرکوز ہے۔ اس کیس کی سماعت لمبے عرصے کے لیے ملتوی کر دی جائے۔