برطانیہ، اسرائیل کو اسلحہ فروخت کے خلاف تین سابق ججوں سمیت لیگل کمیونٹی متحرک

اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی کا مطلب اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جاری نسل کشی کا حصہ بننا ہے،سابق ججز

جمعہ 5 اپریل 2024 12:11

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اپریل2024ء) برطانوی سپریم کورٹ کے سابق ججوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت بند کر دی جائے۔ عرب ٹی وی کے مطابق برطانیہ کی سپریم کورٹ کے ان تین سابق ججوں نے بھی برطانیہ کے قانون و عدالت سے وابستہ 600 سے شخصیات کے اس مطالبے کی حمایت کر دی ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت روک دی جائے۔

مطالبہ کرنے والے قانون دانوں اور ججوں کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی کا مطلب اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جاری نسل کشی کا حصہ بننا ہے۔ خیال رہے برطانیہ میں اسرائیل کو اسلحہ روکنے کی آواز بلند کرنے والوں کی تعداد میں اضافے اور اپوزیشن جماعتوں کے شامل ہونے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے سابق 3 جج حضرات کا اسی مطالبے کے ساتھ آ ملنا غیرمعمولی بات ہے۔

(جاری ہے)

برطانیہ میں قانون کے پیشہ سے وابستہ افراد کا یہ مطالبہ برطانوی بیرسٹرز، سابق جج حضرات اور قانون کے اساتذہ کی طرف سے وزیراعظم رشی سونک سے کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی لائیں۔ بصورت دیگر اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں ہونے والی نسل کشی کا برطانیہ بھی حصہ بن جائے گا۔برطانوی وزیراعظم رشی سونک ان دنوں غیرمعمولی طور پر دبا کی زد میں ہیں کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ کی ترسیل اور فروخت کو روکنے کے اقدامات کریں۔

امدادی کارکن اور برطانوی شہری کی غزہ میں ہلاکت نے اس سیاسی دبا کو ایندھن فراہم کیا ہے۔برطانوی اپوزیشن کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے قانون سازوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت معطل کرنے پر غور کیا جائے۔ لبرل ڈیموکریٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی برآمد معطل کی جائے۔ سکاٹش نیشنل پارٹی نے بھی اس تحریک کی حمایت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمان ایسٹر کے سلسلے میں اپنی چھٹیوں کو منسوخ کر کے اس بحران پر بحث کرے۔

ججوں اور قانون دانوں کی طرف سے وزیر اعظم کو 17 صفحات پر مشتمل لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو فوجی مدد اور جنگی آلات کی فراہمی سے اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی نسل کشی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی میں برطانیہ کو بھی شامل سمجھا جائے گا۔واضح رہے بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی غلط کام کو کرنے والے کو مدد دینا بجائے خود ایک غلط اقدام سمجھا جاتا ہے۔

برطانوی سپریم کورٹ کے سابق تین ججوں میں سے ایک جوناتھن سمپشن ہیں۔ انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں برطانوی حکومت کے بارے میں فکر مند ہوں کہ کہ اس نے نسل کشی کو دیکھنے کی صلاحیت کھو دی ہے۔برطانیہ اسرائیل کو بارودی اور دھماکہ خیز اسلحہ فراہم کرتا ہے، نیز بندوقوں کے علاوہ فوجی طیارے بھی دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بعض دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت کم اسلحہ دینے والا ملک ہے۔

اسرائیل کے لیے برطانیہ کی برآمدات تمام دنیا کی مجموعی برآمدات کا صفر اعشاریہ چار فیصد ہیں۔برطانوی قانون دانوں کا کہنا ہے کہ ماہ جنوری میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے اسرائیل سے کہا تھا کہ ایسے اقدامات سے گریز کرے جو بین الاقوامی قانون کے مطابق نسل کشی کے زمرے میں آتے ہوں۔ نیز غزہ میں قحط پیدا کرنے کے اقدامات سے بھی گریز کرے۔اب بین الاقوامی امدادی کارکنوں پر اسرائیلی بمباری اور سات کارکنوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل کے خلاف غم و غصے میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اسرائیل کو اسلحہ فروخت روکنے سے متعلق مطالبہ کی مزاحمت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اسلحہ کی برآمدات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔وزیراعظم برطانیہ نے کہا کہ ملک کا اسلحہ سے متعلق برآمدی لائسنس کا نظام بڑی احتیاط کے ساتھ وضع کیا گیا ہے اور سارے حساس پہلوں کو خیال میں رکھ کر بنایا گیا ہے اور اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔