اسرائیل کی امداد روکنے کے لیے جرمنی پر قانونی دباؤ

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 11 اپریل 2024 16:00

اسرائیل کی امداد روکنے کے لیے جرمنی پر قانونی دباؤ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2024ء) جرمنی میں کئی مہینوں سے فلسطین کی حمایت میں جاری مظاہرے ملکی پالیسی سازوں کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کر پائے۔ اب منتظمین کامیابی کی امید میں قانونی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فلسطینی یکجہتی تحریک سے وابستہ تنظیم ’یورپین لیگل سپورٹ سینٹر‘ کے ایک بیان کے مطابق گزشتہ ہفتے برلن میں مقیم ان کے وکلاء نے ایک جرمن عدالت میں حکومت کے خلاف 'فوری اپیل‘ دائر کی تھی۔

اس مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے: ''جرمن ہتھیاروں کو نسل کشی اور جنگی جرائم سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے استعمال‘‘ کیا جا رہا ہے۔ اسی بنیاد پر عدالت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا حکم دے۔

(جاری ہے)

اس بارے میں صحافیوں کے پوچھے گئے سوال پر جمعے کے روز حکومت کی نائب ترجمان کرسٹیانے ہوفمان نے کہا کہ وہ معلومات حاصل کرنے کے بعد جواب دیں گی۔

کینیڈا اور نیدرلینڈز جیسے دیگر ممالک نے اسرائیل کی عسکری امداد پر نظر ثانی کے لیے اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔

’جنگی ہتھیار‘ بمقابلہ دیگر عسکری ساز و سامان

تازہ قانونی چارہ جوئی میں 'جنگی ہتھیاروں‘ کی فراہمی روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی تیسرے ملک کو عسکری سامان برآمد کرنے سے متعلق جرمن قوانین میں 'جنگی ہتھیاروں‘ اور 'دیگر عسکری ساز و سامان‘ میں تفریق موجود ہے۔

’جنگی ہتھیاروں‘ میں ٹینک اور لڑاکا طیارے شامل ہیں اور انہیں برآمد کرنے کے لیے سخت معیار پر پورا اترنا ضروری ہے۔

حکومتی اصطلاحات میں 'دیگر فوجی ساز و سامان‘ میں ہیلمٹ، چھوٹے ہتھیار، طبی سامان اور تربیتی وسائل وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔

برلن میں قائم تحقیقاتی ادارے فورینسس کے مطابق 2003 سے 2023 تک قریب بیس برس کے عرصے میں جرمنی نے اسرائیل کو قریب 3.3 بلین یورو مالیت کا عسکری سامان فراہم کیا۔

ان میں سے نصف سے زائد 'جنگی ہتھیار‘ کے طور پر درج ہیں جن میں آبدوزیں تک شامل ہیں۔

فورینسس بھی یہ مقدمہ دائر کرنے والوں سے وابستہ ہے تاہم یہ اعداد و شمار سپری جیسے ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیں جو عوامی طور پر دستیاب ہیں۔ تنازعات پر تحقیق کرنے والے سویڈش ادارے سپری کی ایک حالیہ رپورٹ میں جرمنی کو سن 2019 تا 2023 کے درمیان امریکہ کے بعد اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک قرار دیا گیا تھا۔

سن 2022 تا 2023 میں تو جرمنی اور امریکہ نے قریب ایک جتنا ہی اسلحہ اسرائیل کو فراہم کیا تھا۔ جرمن حکومت کی طرف سے 2023 میں اسرائیل کے لیے گزشتہ برس کے مقابلے میں دس گنا زیادہ برآمدی لائسنس منظور کیے گئے۔

جرمن حکومت کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق حالیہ پانچ سال کے عرصے میں فورینسس کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کو جنگی ہتھیاروں کی 'حقیقی برآمدات‘ کی قیمت 'ترمیم‘ یا 'غیر ظاہر‘ کی گئی ہے تاکہ 'متعلقہ کمپنیوں کی شناخت‘ سے بچا جا سکے اور 'تجارتی اور کاروباری رازوں کی حفاظت‘ کی جا سکے۔

جرمن حکومت نے 2003 سے اسرائیل کو تقریباﹰ تمام برآمدی لائسنسوں کی منظوری دی ہے۔ 2023 میں منظور شدہ اسلحہ برآمدی لائسنسوں کی مجموعی مالیت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباﹰ دس گنا اضافہ ہوا اور یہ 20 سالہ اوسط سے تجاوز کر گئی۔

اسلحے کی مالیت کہانی کا صرف ایک حصہ

دو دہائیوں کے دوران جرمنی نے اسرائیل کو بحری جہاز، بکتر بند گاڑیاں، ٹینک اور ہوائی جہازوں کے پرزوں جیسے 'جنگی ہتھیار‘ فراہم کیے ہیں، مقدمے میں بھی یہی ہدف ہیں۔

درخواست گزاروں کا الزام ہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گرد انہ حملے کے بعد بھی اسرائیل کو اس طرح کے لائسنس بلا روک ٹوک جاری کیے جاتے رہے۔ ان کا الزام ہے کہ اسرائیل نے اس اسلحے کو غزہ پٹی میں اپنی انتہائی شدید جوابی عسکری کارروائی کے لیے استعمال کیا۔

اگرچہ جرمن حکام نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی موقف نہیں دیا لیکن عالمی عدالت انصاف میں جرمنی کے موقف کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی عدالتوں میں جرمن حکومت ان مقدمات کا دفاع کیسے کرے گی۔

اگرچہ یہ مقدمات الگ الگ ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر نکاراگوا اور قومی سطح پر فلسطین کے حامی مدعی چاہتے ہیں کہ نسل کشی کی مبینہ حمایت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر جرمنی کی جانب سے اسرائیل کی حمایت اور خاص طور پر ہتھیاروں کی برآمدات بند کی جائیں۔

جرمن حکام برآمد کے مجموعی اعداد و شمار سے اختلاف نہیں کرتے، اگرچہ ہتھیاروں کی درجہ بندی پر اعتراض ضرور کرتے ہیں۔

عالمی عدالت انصاف میں جرمنی کے وکلاء نے کہا کہ نکاراگوا کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں کوئی 'حقیقت یا قانونی بنیاد‘ نہیں ہے۔

کرسٹیان ٹیمز نے عالمی عدالت انصاف میں جمعے کے روز ججوں کو بتایا، '' نکاراگوا کی طرف کی گئی منظر کشی غلط ہے اور اصل صورتحال کو جان بوجھ کر غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ غزہ میں اسرائیلی جنگی مہم شروع ہونے کے بعد سے منظور کردہ لائسنسوں میں کمی ہوئی ہے۔

ان کا بریک ڈاؤن پیش کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ جو کچھ منظور اور فراہم کیا گیا، وہ جنگی ہتھیار نہیں تھے بلکہ انہیں صرف 'ٹریننگ اور سپورٹ‘ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جرمن حکومت کو داخلی سطح پر مخالفت کا سامنا

فورینسس کی رپورٹ بھی جزوی طور پر ان دعووں کی تائید کرتی ہے کیوں کہ اس میں بھی 2023 میں 'جنگی ہتھیاروں' کے مقابلے میں 'دیگر فوجی ساز و سامان‘ کی زیادہ منظوری دکھائی گئی ہے۔

تاہم ان میں جنگی ہتھیاروں کی 'حقیقی برآمدات‘ سے متعلق 'ترمیم شدہ‘ اور 'مخفی‘ اعداد و شمار کو نہیں گنا گیا۔

ان الزامات پر فیصلہ کرنے کے لیے کہ آیا جرمنی کے خلاف مقدمات میں کوئی صداقت ہے، عدالتوں کو ممکنہ طور پر ان اعداد و شمار کا مفصل اور درست جائزہ لینا پڑے گا۔ جلد کسی حتمی فیصلے کا امکان تو نہیں ہے تاہم عالمی عدالت انصاف چند ہفتوں میں ابتدائی فیصلہ جاری کر سکتی ہے۔

تاہم دریں اثنا جرمن حکومت کو اپنی ہی صفوں میں داخلی سطح پر سخت مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ بائیں بازو کے مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق آئی سی جے میں مقدمے سے قبل مبینہ طور پر سینکڑوں سرکاری ملازمین نے احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ایک گمنام خط لکھا تھا۔

اس خط میں جرمنی کے بنیادی آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا، ''اسرائیل غزہ میں ایسے جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے جو بین الاقوامی قانون اور بنیادی قانون کے بالکل منافی ہیں۔

لہٰذا وفاقی ملازمین کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم وفاقی حکومت کی اس پالیسی پر تنقید کریں اور اسے یاد دلائیں کہ وفاقی حکومت کو آئین اور بین الاقوامی قوانین پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔‘‘

ڈی ڈبلیو آزادانہ طور پر اس خط کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکا۔ وفاقی دفتر خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ جرمن سول سروس کے ارکان کی جانب سے ایک مراسلہ موصول ہوا ہے۔

تاہم جرمن حکومت کی جانب سے اسرائیل کی امداد کے ملکی یا بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہونے کے الزامات کو مسترد کرنے کے علاوہ مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

ولیم نوح گلوکروفٹ (ش ح/م م، ع ت)