بھارت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ووٹرز ناراض کیوں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 12 اپریل 2024 14:40

بھارت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ووٹرز ناراض کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2024ء) دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھارت 19 اپریل سے شروع ہونے والے ملکی عام انتخابات کے لیے زور و شور سے تیاریوں میں مصروف ہے اور ایسے میں بھارتی سیاست دانوں کو ایک سنجیدہ حقیقت کا سامنا ہے۔ یہ حقیقت اس ملک کے کروڑوں پڑھے لکھے مگر بے روزگار نوجوان ہیں۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا تخمینہ ہے کہ 2022ء میں بھارت میں 29 فیصد نوجوان یونیورسٹی گریجویٹس بے روزگار تھے۔

یہ شرح ان لوگوں کے مقابلے میں تقریباً نو گنا زیادہ ہے، جن کے پاس کوئی ڈپلومہ نہیں ہے اور وہ عام طور پر کم تنخواہ والی نوکریاں یا تعمیراتی ملازمتوں میں کام کرتے ہیں۔

صحت سے متعلق سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت کے 1.4 بلین لوگوں میں سے نصف سے زیادہ کی عمر 30 سال سے کم ہے۔

(جاری ہے)

ممبئی کے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز سے تعلق رکھنے والے ترقیاتی ماہر معاشیات آر راما کمار کا کہنا ہے، ''ملازمتیں اتنی تیزی سے نہیں بڑھ رہی ہیں جتنی تیزی سے آبادی میں ممکنہ افرادی قوت پھیل رہی ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ بہت سی نئی ملازمتیں کاشتکاری کے شعبے میں پیدا ہو رہی ہیں۔ رام کمار نے کہا، ''یہی ایک وجہ ہے کہ آپ کو سرکاری ملازمتوں میں تھوڑی تعداد کے لیے درخواست دہندگان کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورت حال "غیر قانونی چینلز کے ذریعے ہندوستان سے باہر جانے کے لیے لوگوں کی کوششوں" کی بھی وضاحت کرتی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، جن کی آئندہ انتخابات میں تیسری بار جیتنے کی توقع ہے، ایپل اور ڈیل جیسی عالمی ٹیک کمپنیوں کو بھارت میں دفاتر کھولنے پر راضی کرنے کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت سے پیداواری شعبے میں لاکھوں ملازمتیں ملنے کا خواب حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا۔

ورلڈ بینک نے اس ماہ متنبہ کیا تھا کہ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح بھارت ''اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی کام کرنے کی عمر کی آبادی کی رفتار کی مطابقت سے ملازمتیں پیدا نہیں کر رہا ہے۔

‘‘ بہت سے نوجوان بھارتیوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سرکاری ملازمتوں کی جنونی دوڑ میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، جو معقول تنخواہ، سماجی فوائد اور استحکام کے لیے قابل قدر سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن ان سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے مقابلہ شدید ہے۔

مثال کے طور پر ریاست کے زیر انتظام بھارتی ریلوے کو سینکڑوں ہزاروں درمیانی یا نچلی سطح کی ملازمتوں کے لیے لاکھوں درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔

34 سالہ گنیش گور کا کہنا ہے کہ انہوں نے پانچ بار سول سروس کے امتحان میں پاس ہونے کی ناکام کوشش کی۔

گور نے کہا،'' کوئی بھی پارٹی یا سیاست دان ہماری مدد نہیں کرتا۔ وہ وہاں پیسے کھانے بیٹھے ہیں۔‘‘

بڑھتی ہوئی بے روزگاری نوجوانوں کو خطرناک ملازمتوں کے انتخاب کے لیے بھی مجبور کرتی ہے۔ اس سال کے شروع میں غزہ میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کی وجہ سے مزدوروں کی قلت کے بعد ہزاروں بھارتی شہری اسرائیل میں ملازمتوں کے لیے درخواستیں جمع کرانے کے لیے طویل قطاروں میں کھڑے دیکھے گئے۔

بھارت 2022 ء میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن گیا تھا۔ لیکن بہت سے نوجوان کہتے ہیں کہ وہ مواقعوں کی کمی کی وجہ سے مایوس ہیں۔ لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا بے روزگاری پر غصہ مودی کی حکمران جماعت کی انتخابی کار کردگی کو کتنا متاثر کرے گا۔

دہلی میں قائم لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس ریسرچ سینٹر کے مطابق دارالحکومت دہلی کے طلباء پر مشتمل مارچ میں کیے گئے ایک سروے میں صرف 30 فیصد شرکاء نے بیروزگاری کی بلند شرح کے لیے مودی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا۔

لیکن گنیش گور جیسے کچھ جوان سیاست دانوں کو بڑے بڑے امیر افرادکا آلہ کار سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ قومی ترقی کے وسیع تر ملکی مفاد کو ترجیح دینے کے بجائے زاتی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ گور نے کہا کہ ملک کو مٹھی بھر کروڑ پتی اور ارب پتی چلا رہے ہیں۔ ان کے بقول، ''سیاستدانوں کا زیادہ اثر و رسوخ نہیں۔‘‘

ش ر ⁄ ع ت (اے ایف پی)