لاوارث قیدی: ’نہ کوئی ہمارا انتظار کرتا ہے نہ ہم کسی کا‘

DW ڈی ڈبلیو اتوار 14 اپریل 2024 12:40

لاوارث قیدی: ’نہ کوئی ہمارا انتظار کرتا ہے نہ ہم کسی کا‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2024ء) جیل حکام، قید میں وقت گزارنے والے افراد اور وکلاء سے بات کرنے کے بعد ڈی ڈبلیو اردو کو جو معلومات حاصل ہوئیں اس کے مطابق لاوارث قیدیوں کی چار اقسام بنتی ہیں۔

پہلی، ایسے قیدی جن کا خاندان ہوتا ہی نہیں۔ مثال کے طور پر لاوارث بچے جو کسی ادارے کی سرپرستی میں پلے اور خاندان آباد کرنے سے پہلے کوئی جرم سرزد کر بیٹھے۔

دوسری، جن کا خاندان قطع تعلق کر چکا ہوتا ہے۔ مثلاً گھر والوں کے لیے مسلسل پریشانی کا باعث بننے والا منشیات کا عادی یا اپنے ہی خاندان کے کسی فرد کا قاتل وغیرہ۔ ایسے افراد کے خلاف بالعموم خاندان خود مدعی ہوتا ہے۔ اس کیٹیگری میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو کسی جرائم پیشہ گروہ کا حصہ بن گئے اور خاندان سے مکمل علیحدہ ہو چکے ہوں۔

(جاری ہے)

تیسری، ایسے قیدی جن کے خاندان ہوتے ہیں اور وہ رابطہ بھی رکھنا چاہتے ہیں مگر نامساعد حالات انہیں اجازت نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر صرف بوڑھے ماں باپ ہیں جن کے پاس پیسہ ہے نہ جیل جا کر ملاقات کرنے کی ہمت۔ بعض اوقات اہل خانہ میں محض چھوٹے بچے اور بیوی ہوتی ہے جس کے لیے سماجی و معاشی حالات اپنے شوہر کی خبر گیری مشکل بنا دیتے ہیں۔

چوتھی، غیر ملکی قیدی جو سمگلنگ یا سفری دستاویزات نہ ہونے کے سبب پکڑے گئے۔ عام طور پر انہیں بہتر سہولیات دی جاتی ہیں۔

جیل پہچنے کے بعد ایسے افراد مکمل طور پر جیل حکام اور دیگر قیدیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان کے حوالے سے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق یہ تعداد چار سے سات فیصد کے درمیان ہے۔

عام قیدیوں کی نسبت لاوارث قیدیوں کے لیے جیل زیادہ مشکل کیوں ہوتی ہے؟

چند ماہ قبل اقدام قتل کے جرم میں سزا کاٹ کر رہا ہونے والے بتیس سالہ اجمل شہزاد شاہ پور کے رہائشی ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ جیل میں اپنی 'لاوارثی کی قید‘ کا احوال بیان کرتے ہیں۔

ان کے بقول ”ایسے قیدی جنہیں قید بامشقت ہو، وہ روٹی پکاتے یا صفائی وغیرہ کرتے ہیں اور یہ مشقت مخصوص اوقات کے لیے ہوتی ہے، لیکن ہم چوبیس گھنٹے کے مشقتی تھے۔

میں جن لوگوں کے ساتھ رہا وہ سب باری باری ٹانگیں دبواتے، سر کی مالش کرواتے، کپڑے اور برتن دھلواتے۔ میں ان کے حکم کا پابند نہ تھا مگر چار سال ان کے ساتھ رہا اور اس دوران کبھی انکار نہیں کیا۔ جانتے ہیں کیوں؟ تاکہ وہ مجھے ہر ماہ چار پیکٹ سگریٹ، صابن کی ایک ٹکی اور اپنا بچا ہوا کھانا دیتے رہیں۔ یہ مکمل غلامی والی زندگی تھی۔ انسانوں کی غلامی کیا ہوتی ہے کوئی لاوارث قیدیوں سے پوچھے۔

"

عرفان ماں باپ کے اکلوتا بیٹے ہیں۔ والدہ فوت جبکہ والد نشے کی لت کے باعث اپنے حواس کھو چکے تھے۔ وہ جیل میں بائیس سال کی لاوارثی قید کاٹ کر گزشتہ برس رہا ہوئے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ”ہم ایک بیرک میں چار لاوارث قیدی تھے۔ ہم سب دوسرے قیدیوں کی مشقت کرتے اور کبھی موقع ملتا تو آپس میں بیٹھ کر باتیں کر لیتے۔

اکثر ہم میں سے کسی نہ کسی کے منہ پر نیل ہوتا یا آنکھ سوجی ہوتی۔ کوئی نہ پوچھتا نہ بتاتا کہ کیا ہوا ہے۔ سب جانتے تھے، تشدد ہماری زندگی کا حصہ تھا۔"

وہ کہتے ہیں، ”نہ کوئی ہمارا انتظار کرتا نہ ہم کسی کا، شروع شروع میں بہت تکلیف دہ تھا کہ ہمارا ملاقاتی ہی کوئی نہیں۔ کوئی نہیں جسے ہم فون کر سکیں۔ پھر اس اذیت کے عادی ہو گئے۔"

لاوارث قیدیوں کو سرکاری طور پر کیا سہولیات حاصل ہوتی ہیں؟

گزشتہ نو سال سے ڈیپوٹیشن پر بطور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل خدمات انجام دینے والے ملک مبشر ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”ہر عدالت میں لاوارث قیدیوں کے مقدمات لڑنے والے وکلاء کی ایک فہرست موجود ہوتی ہے۔

مقدمے کی نوعیت کے مطابق ایسے وکلاء کو سرکاری خزانے سے فیس ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ وکلاء انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی یہ کام کرتے ہیں، جو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔"

وہ کہتے ہیں، ”ہر جیل میں ایک سوشل سیکورٹی آفیسر ہوتا ہے۔ وہ ایسے قیدیوں کے معاملات دیکھتا جن کی سزا پوری ہو چکی لیکن ان پر جرمانہ ہے اور وہ ادا نہیں کر سکتے۔

سوشل سیکورٹی آفیسر ایسے لوگوں کی تفصیلات مقامی خیراتی اداروں اور مخیر حضرات سے شئیر کرتا ہے۔ اگر جرمانے کی رقم ہزاروں میں ہو تو عام طور پر بندوبست ہو جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ رقم لاکھوں میں ہوتی ہے اور قیدی سالہا سال جیل میں پڑے رہتے ہیں۔ ان میں بڑی اوسط لاوارث یا انتہائی غریب قیدیوں ہوتی ہے۔‘‘

ملک مبشر کے مطابق، ''نشے کے عادی افراد کے لیے بحالی سینٹر ہوتا ہے۔

اسی طرح چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے ساتھ مل کر منڈا خانہ میں رہنے والے اٹھارہ سال سے کم عمر قیدیوں کی تعلیم، صحت اور پروٹیکشن کا کام کیا جاتا ہے۔ اگر بچے لاوارث ہوں تو وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔"

تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دوسرے قیدی لاوارثی کاٹنے والوں کا استحصال کرتے ہیں۔

لاوارث قیدیوں کی امداد کے لیے خصوصی ڈیسک کے قیام کا مطالبہ

لاوارث قیدیوں کے رضاکارانہ مقدمات لڑنے والے لاہور ہائی کورٹ کے وکیل حسین ڈھلوں سے ڈی ڈبلیو نے جاننے کی کوشش کہ لاوارث قیدیوں کو میسر قانونی سہولیات کس قدر کافی ہیں؟

ان کا کہنا تھا، ”اس میں بہت سے مسائل ہیں۔

لاوارث قیدیوں کی اپیل جیل سپرنٹنڈنٹ کا کام ہے۔ اگر ٹرائل کورٹ کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ ہائی کورٹ میں اپیل ہی دائرہ نہ کرے تو کسی کو خبر ہوتی ہے نہ کوئی پوچھتا ہے۔ میڈیا میں ایسے واقعات ریکارڈ ہوئے کہ دس دس برس لاوارث قیدی کی طرف سے اپیل آگے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں نہ بھیجی گئی۔ پھر بعض اوقات عدالت پچاس ہزار کے مچلکے جمع کروانے کے بدلے رہائی کا حکم دیتی ہے۔

لاوارث قیدی کے لیے کون پچاس ہزار کی ضمانت جمع کروائے گا؟‘‘

وہ مزید بتاتے ہیں، ”ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے پروبونو، یعنی پیسوں کے بغیر پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دینا۔ بہت کم واقعات میں یہ انفرادی سطح پر ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس طرح کے پورے نظام کی ضرورت ہے۔ تاکہ ایسے لوگوں کو بہتر قانونی مدد دی جا سکے۔"

لاوارث قیدیوں کے لیے کام کرنے والے قلم فاؤنڈیشن کے چیئرمین عبدالستار عاصم ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”پاکستان کی جیلوں میں تقریباً پانچ ہزار افراد سزا پوری کرنے کے باوجود رہائی سے محروم ہیں۔

ان میں جرمانہ یا ہرجانہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں۔ ان میں کچھ لاوارث جبکہ باقی انتہائی غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ سرکاری سطح پر ایسے لوگوں کے لیے فنڈز مختص کرنے اور اس کا شفاف نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ بظاہر لاوارث قیدیوں کی تعداد چند فیصد ہے لیکن ان کی مشکلات کا تصور بھی خوفناک ہے۔"