پولٹری کے غیر حقیقی نرخوں کے زبردستی نفاذ پر تشویش ہے، ڈاکٹر سجاد ارشد

اب جبکہ پولٹری فارمرز کو چند پیسے بچ رہے ہیں تو مارکیٹ میں انتظامی مداخلت کے ذریعے بحرانی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے

جمعرات 18 اپریل 2024 11:50

مکوآنہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اپریل2024ء) فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے سینئر نائب صدر اور پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے سابق سنٹرل چیئرمین ڈاکٹر سجاد ارشد نے پولٹری کے غیر حقیقی نرخوں کے زبردستی نفاذ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کے اقدامات سے عوام کو سستی پروٹین مہیا کرنے والا یہ شعبہ تباہ ہو جائے گا جبکہ پولٹری کے نرخوں میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں مختلف اشیاء کے نرخ مارکیٹ فورسز طے کرتی ہیں مگر پاکستان میں ابھی تک دقیانوسی نظام کے ذریعے خالصتاً معاشی مسائل کو انتظامی اقدامات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے نہ صرف اصل مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ نظام میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مارکیٹ اور حکومتی ریٹوں میں 50روپے کا فرق ہے جس سے پولٹری کا پورا شعبہ متاثر ہو رہا ہے اور اِن حالات میں کاروبار کرنا ممکن ہی نہیں کیونکہ فارمرز اور دوکاندار دونوں ہی خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جب مندا ہوتا ہے تو حکومت نے کبھی اس شعبہ کے نقصانات کی تلافی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ پولٹری فارمرز کو چند پیسے بچ رہے ہیں تو مارکیٹ میں انتظامی مداخلت کے ذریعے بحرانی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے حالانکہ اس سے فارمرز کے ہونے والے نقصانات کا تھوڑا بہت ازالہ ممکن ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا اور افریقہ کے کم ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں صرف مختلف اشیاء کی کوالٹی پر توجہ دیتی ہیں جبکہ ریٹس مارکیٹ فورسز طے کرتی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جب اس شعبہ میں منافع ملتا ہے تو مزید لوگ اس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اس طرح پیداوار بڑھنے سے قیمتیں خود بخود کم ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں پولٹری کی صنعت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کی پیداواری لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ایک دن کا چوزہ جو 60/70روپے میں دستیاب تھا اُس کی قیمت بڑھ کی220 روپے سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔

اسی طرح پولٹری میڈیسنز کے ریٹ میں بھی چار سو سے پانچ سو فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولٹری کے ایک شیڈ کا بجلی خرچہ ڈیڑھ لاکھ تھا جو اب بڑھ کے 9لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔ اس طرح پولٹری فیڈ کے نرخوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر سجاد ارشد نے کہا کہ پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے پولٹری شیڈز کی تعداد 50فیصد تک کم ہو گئی تھی جس میں برائلرز اور بریڈرز دونوں قسم کے شیڈ شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ مستقل مندے اور اخراجات کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے بریڈرز کمپنیاں 150سے کم ہو کے صرف 30رہ گئی ہیں ۔ اس صورتحال کی وجہ سے 50فیصد فارمز نے یہ کام ہی چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو فارمرز 20فارم چلانے کی استعداد رکھتے تھے۔ وہ کیپسٹی کم کر کے اب صرف 10فارم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس خالصتاً معاشی مسئلے کو ڈنڈے کے زور پر حل کرنے کی بجائے کاروبار دوست ماحول پیدا کرنا چاہیے کیونکہ جب فارمرز کو پیسے بچیں گے تو وہ پیداوار کو مزید بڑھائے گا اور اس سے مارکیٹ میں صحتمندانہ مسابقت سے پولٹری کے نرخوں میں لازماً کمی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری پولٹر ی کے سرکاری نرخوں کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اِن اشیاء کی قیمتوںکا تعین مارکیٹ فورسز پر چھوڑا جائے اوریہ اکنامکس کے بنیادی اصول طلب اور رسد کے مطابق ہونا چاہیے۔