امریکی پولیس کولمبیا یونیورسٹی میں داخل، درجنوں طلبہ گرفتار

DW ڈی ڈبلیو بدھ 1 مئی 2024 14:20

امریکی پولیس کولمبیا یونیورسٹی میں داخل، درجنوں طلبہ گرفتار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 مئی 2024ء) کولمبیا یونیورسٹی میں شروع ہونے والا مظاہرہ غزہ میں جاری جنگ کے خلاف دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والے مظاہروں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں اس یونیورسٹی میں شروع ہونے والے مظاہرے اس وقت امریکہ کی بیشتر ریاستوں میں بہت سے اہم تعلیمی اداروں تک پھیل چکے ہیں۔

اسرائیل کی حمایت میں بھی متعدد یونیورسٹیوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔

امریکہ کے بعد فرانسیسی یونیورسٹی میں بھی فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج

غزہ پالیسی: امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان مستعفٰی

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق منگل کی رات تقریباً نو بجے کیمپس میں داخل ہونے کے بعد کچھ پولیس افسران ہملٹن ہال کے قریب پہنچے، جس پر طلبہ نے منگل کی صبح اس وقت سے قبضہ کر رکھا تھا، جب یونیورسٹی انتظامیہ نے مظاہرہ ختم نہ کرنے پر طلبہ کو معطل کرنا شروع کیا تھا۔

(جاری ہے)

طلبہ نے ہملٹن ہال پر قبضہ کرنے کے بعد اس کا نام غزہ میں ہلاک ہونے والی چھ سالہ بچی ہند رجب کے نام پر 'ہندز ہال‘ کر دیا تھا۔

اے پی کے مطابق اس ہال میں داخل ہونے کے تھوڑی دیر بعد پولیس متعدد طلبہ کو پکڑ کر گاڑیوں میں بٹھاتی ہوئی نظر آئی۔ ایسے طلبہ کی تعداد تیس سے چالیس کے درمیان تھی، ان کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔

ہملٹن ہال کے باہر کھڑے دیگر مظاہرین ''آزاد، آزاد، آزاد فلسطین‘‘ اور ''طلبہ کو چھوڑ دو‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں نے پولیس کی جانب اشارے کرتے ہوئے ''شرم کرو، شرم کرو‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔

غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں تیزی

ہملٹن ہال کو مظاہرین سے خالی کرانے کا یہ واقعہ اس واقعے کے ٹھیک 56 برس بعد پیش آیا، جب پولیس نسل پرستی اور ویتنام جنگ کے خلاف طلبا کے احتجاج کو ختم کرانے کے لیے کولمبیایونیورسٹی میں داخل ہوئی تھی۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے کیا کہا؟

کولمبیا یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا، ''ہمارا ماننا ہے کہ جو گروپ عمارت میں داخل ہوا اور اس نے عمارت پر قبضہ کر لیا، اس کی قیادت ایسے افراد کر رہے تھے جو یونیورسٹی سے وابستہ نہیں ہیں۔‘‘

یونیورسٹی کے عوامی امور کے نائب صدر بین چانگ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ہم نے کل ہی یہ بات بالکل واضح کر دی تھی کہ یونیورسٹی اپنے کام کاج میں ایسے مظاہرین کی مداخلت برداشت نہیں کرے گی جو قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

‘‘

اسرائیل اپنی فوج پر ممکنہ امریکی پابندیوں پر برہم کیوں؟

دوسری طرف مظاہروں کو منظم کرنے والے طلبہ کے گروپ کی ایک رکن سویدہ پولات کا کہنا تھا، ''کولمبیا (یونیورسٹی) کو ان طلبہ پر فخر ہو گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ طلبہ سے یونیورسٹی کو کوئی خطرہ نہیں تھا اور یونیورسٹی حکام کو چاہیے کہ وہ پولیس کو کیمپس سے چلے جانے کے لیے کہیں۔

احتجاج کرنے والے طلبہ کا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی اسرائیلی حکومت کی حمایت کرنے والی کمپنیوں سے تعلق ختم کرے، یونیورسٹی کے مالی معاملات میں زیادہ شفافیت لائی جائے اور مظاہروں میں حصہ لینے والے طلبہ اور اساتذہ کے خلاف کی گئی کارروائی واپس لی جائے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کا ردعمل

وائٹ ہاؤس نے طلبہ کے بڑھتے ہوئے مظاہروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ صدر بائیڈن کا خیال ہے کہ کیمپس کی عمارت پر زبردستی قابض ہونا ایک بالکل غلط طریقہ ہے اور یہ ''کسی پرامن احتجاج کی مثال نہیں ہے۔‘‘

جان کربی کے مطابق صدر بائیڈن کو مظاہرین کے جذبات کا احساس ہے، لیکن اس سے غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے لیے امریکی حمایت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ صدر کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا بھر میں ہمارے قومی سلامتی کے مفادات کا خیال رکھیں اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ اس خطے کے لیے ایسے فیصلے کریں جو ان کے مفادات کی حمایت کرتے ہوں۔

جان کربی نے احتجاجی طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''آپ کو یہ احتجاج پرامن طریقے سے کرنا ہے۔ آپ کسی کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے اور آپ اپنے ساتھی طلبہ کی تعلیم میں رکاوٹ بھی نہیں ڈال سکتے۔

‘‘

یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم اکثر یہودی طلبہ کیمپس نہیں آ رہے اور انہوں نے انتظامیہ سے یہ کہتے ہوئے احتجاجی کیمپ ختم کرانے کا مطالبہ کیا ہے کہ اس سے یہود مخالف جذبات کو ہوا مل رہی ہے، جب کہ مظاہرے کرنے والے طلبہ کے رہنما اس کی تردید کرتے ہیں۔

ج ا / م م (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)