پاکستان لٹریچر فیسٹیول(کوئٹہ چیپٹر۔ بلوچستان ) کی افتتاحی تقریب

بدھ 15 مئی 2024 21:55

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 مئی2024ء) اسپیکر بلوچستان اسمبلی کیپٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی نے ملک بھر سے ادبی شخصیات کوبلوچستان آنا خوش آئند ہے اچھے الفاظ کا استعمال کرنے والے تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں ادب کی طاقت لوگوں کو متحد کرتی ہے ادبی میلہ روشن خیالی کا باعث بنے گا مقامی زبانوں کو فروغ ادب کی آبیاری کرتا ہے بلوچ پشتون لیڈر شب سب کو اکھٹا کرے نوجوان ایسی لیڈر شپ کے پیچھے چلیں جو سب کو متحد کرے بلو چستان مختلف زبانوں کا گلدستہ اور منفرد ثقافت کا خطہ ہے نوجوانوں میں ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کی صلاحیت ہے نوجوان اپنی صیلاحیتوں کے بل بوتے پر ملک کی خدمت کریں تاکہ بلوچستان خوشحال اور پاکستان ترقی کرے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز میںآرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے پاکستان لٹریچر فیسٹول کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

افتتاحی تقریب میں بلوچستان سمیت پاکستان بھر سے نامور ادیب و شعراء نے شرکت کی صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے تمام مہمانوںکو خوش آمدید کہا افتتاحی تقریب میں صوبائی وزیر ثقافت سندھ ذوالفقار علی شاہ، وائس چانسلر بیوٹمز یونیورسٹی ڈاکٹر خالد حفیظ، سابق پرنسپل سیکرٹری و شاعر فواد حسن فواد، ادیبہ نورالہدیٰ شاہ، غازی صلاح الدین، حفیظ جمالی، منیراحمد بادینی، استاد نورل، سلیم صافی، مظہر عباس، صادقہ صلاح الدین، معروف اداکار سہیل احمد اور معروف صحافی شہزادہ ذولفقار بھی موجود تھے۔

وزیر ثقافت سندھ سید ذولفقار شاہ نے کہا کہ ادب اور ثقافت کی ترقی کا تسلسل رہنا چائیے بلوچستان میں اجتماع کا اچھا تاثر جائے گا یہ دور نوجوانوں کا ہے یہ ملک کو جوڑ سکتے ہیں بلوچستان کے احساس کمتری کو صرف نوجوان ہی ختم کرسکتے ہیں نوجوانوں کا چاروں صوبوں میں آنا جانا رہنا چاہئے ۔ انہوں نے بیوٹمز کے طلباء کو سندھ کے تاریخی مقامات، ثقافت سمیت دیگر حوالوں سے مقامات کا دورہ کرانے کی دعوت دی۔

پاکستان فیسٹول اور آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ نے کہا ہے کہ پی ایل ایف نوجوانوں کو آگے لانے کے عزم کے ساتھ آئی ہے بلوچستان کی مقامی زبانوں کا ادب ہی اس ملک کا اصل ادب ہے بلوچستان ہزاروں سال پرانی ثقافت کا امین ہے ۔ صادقہ صلاح الدین نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی کا بہت سا حصہ کوئٹہ میں گزارامیں یہ نہیں کہتی کہ ماضی کے زمانے میں چلے جائیں مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ اٹھاتے ہوئے پرانی روایتوں کو بھی زندہ رکھیںہم آرٹ اور کلچر کے ذریعے ملک میں تبدیلی لاسکتے ہیںپہلے جشن کوئٹہ ہوا کرتا تھا اور اس کی دھوم کوئٹہ کے گھر گھر میں ہوتی تھی مشاعرے کمال کے ہوا کرتے تھے، کوئٹہ ہمیشہ سے ملاجلا سا شہر رہا ہے ملا جلا ہونا شہر کا ہونا کوئٹہ کی شان ہے۔

بلوچستان سے رشتہ قائم ہو تو ہمشہ رہتا ہے ماضی میں یہ شہر پر فضا مقام تھا یہاں کے مشاعرے تاریخی حیثیت کے حامل رہے۔ آرٹ اور کلچر ایک دوسرے کو جوڑنے کے لئے ہے ۔ نامور صحافی سلیم صافی نے کہا کہ بیوٹمز کے بارے میں بہت سنا تھا مگر آپ سب لوگ خوش قسمت ہیں بلوچستان کہ نہیں بلکہ پاکستان کے ایک بہترین ادارے میں آپ کو پڑھنے کا موقع ملا ہے۔

آج سے ایک ماہ پہلے اے آئی (Ai)آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے مسئلہ پر پروگرام کرنا چاہ رہا تھا مگر پورے پاکستان میں مجھے کوئی ماسٹر لیول کا شخص نہیں ملاخوش قسمت ہیں آپ لوگوں کو ایسا وائس چانسلر میسر ہے جو اتنا دور اندیش اور مستقبل بین ہے کہ انہوں نے 1992ء میں اے آئی میں پی ایچ ڈی کی تھی میں نے بلوچستان کی قوم پرست قیادت کو سب سے سنجیدہ پایاآپ ان کے جانشین ہیں مجھے یقین ہے آپ روایت کو برقرار رکھیں گے صدر آرٹس کونسل محمد شاہ نے ایک گلدستہ کوئٹہ میں سجایا ہے جس کا بنیادی مقصد اپنی خوشیوں میں دکھوں کے مارے اس صوبے کے نوجوانوں کو شریک کرنا ہے اور آپ کی آواز پورے پاکستان تک پہنچانا ہے ۔

مظہر عباس نے کہا کہ بلوچستان سے تعلق پرانا ہے بلوچستان پاکستان کو بدلے گا۔ بلوچستان میں تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے کروڑوں روپے کسی سیکرٹری کے گھر سے برآمد ہونے کی بجائے یہاں کے لوگوں پر خرچ کئے جائیں بلوچستان کے نوجوان سب سے زیادہ باشعور ہیں ۔ نورالہدی شاہ نے کہا کہ یہاں کے لوگوں کو قریب سے دیکھ کر مسائل سے آگاہی ہوئی قلم اور باہمی گفتگو بڑا ہتھیار ہے۔

منیر احمد بادینی نے کہا کہ محنت اور مشقت میں شارٹ کٹ نہیںہوتا مستقبل نوجوانوں کے اپنے ہاتھ میں ہے یہ بات قابل فخر ہے کہ بلوچستان کے لوگوں نے ہر شعبے میں اپنی شناخت بنائی ہے نوجوان کوئٹہ آئے ہوئے شعرا اور ادیب حضرات کے تجربات سے مستفید ہوں ۔ معروف فنکار سہیل احمد عزیزی نے کہا کہ سب پاکستانی ہیں پہلی بار کوئٹہ آیا ہوں بلوچستان کے لوگوں کی محبت کھبی ختم نہ ہوگی ادبی فیسٹیول ادب اور ثقافت کو جوڑنے کے لئے ہے ہر تین ماہ بعد یہاں فیسٹیول ہونا چاہئے۔

زندگی میں پہلی مرتبہ کوئٹہ آیا ہوں آپ لوگوں کو دیکھ کر مجھے امجد اسلام امجد کا شعر یاد آرہا ہے محبت ایسا دریا ہے کہ ، بارش روٹھ بھی جائے ،تو دریا کم نہیں ہوتا ،آپ کو دیکھ کر یہ محسوس ہورہا ہے کہ محبت کبھی بھی کم نہیں ہوسکتی آپ انتہائی پیار اور محبت کرنے والے لوگ ہیں محبت ایسا پاک رشتہ ہے جس میں آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ڈیٹنگ کرسکتے ہیں آپ نے رب سے ملنا ہو تو محبت شروع کردیں آپ کو اللہ تعالیٰ مل جاتا ہے احمد شاہ صاحب پاکستانی ثقافت کے ملنگ ہیں اور یہ ایسے ملنگ ہیں جو بلوچی لیوا بھی جانتے ہیں جو پنجابی دھمال بھی جانتے ہیں جو خیبرپختونخوا کا خٹک ڈانس اور سندھی رقص بھی جانتے ہیںیہ جہاں بھی جاتے ہیں اسی طرح دھمال ڈال کر لوگوںمیں محبتیں بانٹتے ہیں اور لوگوں کا پیار سمیٹتے ہیںاس فیسٹیول کو اتنا کامیاب بنائیں کہ یہ سال بعد نہیں ہر تین ماہ بعد یہاں آئیںجب میں ایئرپورٹ سے ہوٹل کی طرف گیا تو پہاڑ دیکھ کر میں نے سوچا کہ یہاں کیا ہوگا مگر آج آپ لوگوں کو یہاں دیکھ کر میں برملا کہتا ہوں کہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول کوئٹہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ کامیاب فیسٹیول ہوگاسارے دوستوں کو اس میں شرکت کی دعوت دیں ہمیں ایک دوسرے کو صحیح سمت کی طرف لانا چاہیے محمد احمد شاہ اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا شکریہ جنہوں نے بلوچستان میں محبت کو اس طرح اکٹھا کیا۔

فواد حسن فواد سمیت دیگر نے بھی اظہار خیال کیا۔ بیوٹمز یونیورسٹی میں منعقدہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا آغاز پاکستانی قومی ترانے سے کیاگیافیسٹیول میں طلباء و طالبات کی بڑی تعداد شریک تھی پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں مختلف اسٹالز لگائے گئے جن میں کتابیں، کھانے پینے کی اشیاء دست کاری، سندھی ، ٹوپی اجرک سمیت دیگر شامل ہیں۔