Live Updates

عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے سکرین سے لی جانی والی تصویر پر عدالتی عملے اور اہلکاروں سے پولیس کی پوچھ گچھ

سابق وزیراعظم کا جیل سے ویڈیو لنک کو بڑی سکرین سے ہٹا دیا گیا ‘ کے پی کے حکومت کے وکیل نے عدالت کی توجہ دلائی کہ کاروائی کو براہ راست نہیں دکھایا جارہا‘ چیف جسٹس قاضی فیض عیسی نے انہیں حکم دیا کہ آپ جاکر اپنی کرسی پر بیٹھ جائیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 16 مئی 2024 13:28

عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے سکرین سے لی جانی والی تصویر پر عدالتی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16مئی۔2024 ) سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے تاہم ابھی تک عدالتی کاروائی کو سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست دکھانے پر کوئی حکم عدالت کی جانب سے نہیں جاری کیا گیا. سابق وزیراعظم عمران خان کا جیل سے ویڈیو لنک کو بڑی سکرین سے ہٹا دیا گیا ہے کے پی کے حکومت کے وکیل نے عدالت کی توجہ دلائی کہ کاروائی کو براہ راست نہیں دکھایا جارہا جس پر چیف جسٹس قاضی فیض عیسی نے انہیں حکم دیا کہ آپ جاکر اپنی کرسی پر بیٹھ جائیں‘عمران خان نے لائیو ویڈیو لنک کے دوران شکایت کی کہ تیزروشنی سے انہیں تکلیف ہورہی ہے جس کے بعد جیل میں موجود عدالتی اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کیا .

(جاری ہے)

آج عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان نے بیان ریکارڈ کروانا تھا تاہم عدالت کی جانب سے ابھی تک انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا نیب ترامیم کے خلاف کیس پر اپیلوں کی سماعت سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی اڈیالہ جیل سے وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہیں سماعت 11 بجکر 40 منٹ پر شروع ہوئی تو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ سکرین پر کچھ نظر نہیں آ رہا جس کے بعد کیمرہ لنک آن کر دیا گیا.

ویڈیو لنک پر اڈیالہ جیل میں عمران خان آسمانی رنگ کی پولو شرٹ پہنے کرسی پر براجمان تھے سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے جبکہ عمران خان خاموشی سے کارروائی سنتے رہے آج کی سماعت سپریم کورٹ نے براہ راست نشر نہیں کی تھی تاہم عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کی ایک انٹرنیٹ پر ایک تصویرگردش کرنے لگی جو کمرہ عدالت میں لی گئی ہے.

عدالت سے عمران خان کی تصویر لیک ہونے پر عدالتی عملے اور اہلکاروں سے پولیس نے پوچھ گچھ کی اور عدالتی عملے کو باری باری کمرہ عدالت سے باہر بلا کر اس بارے میں پوچھا گیا گذشتہ سماعت پر عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت جاری کی تھی کہ اس کیس کے مرکزی درخواست گزار عمران خان کی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری یقینی بنائی جائے. کیس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں 14 مئی کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے اپنے حکم نامے میں نیب سے اخراجات اور ریکوری کی تفصیلات طلب کیں تھیں سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو نوٹس جاری کیا اور اٹارنی جنرل کو عمران خان کے لیے آئندہ سماعت پر ویڈیو لنک انتظام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 16 مئی دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کی تھی.

گذشتہ سماعت کے شروع میں عمران خان کا خط عدالت میں پیش کیا گیا کہ وہ اس مقدمے میں پیش ہونا چاہتے ہیں، اس پر عدالت نے کہا کہ عمران خان چاہیں تو آئندہ سماعت پر ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دے سکتے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بڑی عجیب صورت حال ہے کہ عمران خان جو اس مقدمے میں درخواست گزار تھے اور اب اپیل میں ریسپانڈنٹ ہیں ان کی یہاں پر نمائندگی نہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے میں پٹیشنر عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہونا چاہتے ہیں تو ان کو یہاں پیش کیا جانا چاہیئے، وہ اس مقدمے میں ایک فریق ہیں ہم ان کو پیش ہونے کے حق سے کیسے روک سکتے ہیں یہ نیب کا معاملہ ہے اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ان کا حق ہے.

واضح رہے کہ گذشتہ برس 31 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کا حکم نامہ لکھواتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ نیب ترامیم کیس کے فیصلے کو معطل نہیں کریں گے، صرف احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکیں گے عمران خان کی جانب سے سال 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت پی ڈی ایم کی سابق حکومت کی متعارف کردہ نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا جس کی سماعت سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے کی تھی.

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ گذشتہ برس 15 ستمبر کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل جاری کیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترمیم کالعدم قرار دے دی تھی اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں جبکہ عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کر دیے اور انہیں احتساب عدالت میں بھیجنے کا حکم دیا تھا، نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم جاری کیا تھا.

یہ فیصلہ تین رکنی بنچ نے سنایا تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا گذشتہ برس17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی اپیل میں وفاق، نیب اور سابق وزیراعظم عمران خان کو فریق بنایا گیا جبکہ 15 اکتوبر کو درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے بھی پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی.
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات