موجودہ حالات میں کراچی پاکستان کا معاشی حب نہیں رہا، گورنر سندھ

جرائم بڑھنے کیساتھ سرمایہ کاروں میں اعتماد کا فقدان، صنعتکار شہر چھوڑ رہے ہیں، کامران ٹیسوری

جمعرات 16 مئی 2024 22:00

موجودہ حالات میں کراچی پاکستان کا معاشی حب نہیں رہا، گورنر سندھ
�راچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 مئی2024ء) گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں کراچی پاکستان کا معاشی حب نہیں رہا، کراچی جرائم میں اضافہ کے ساتھ مجرموں کا شہر بنتا جارہا ہے،جبکہ سرمایہ کاروں میں اعتماد کا فقدان ہے جس کے باعث صنعتکار کراچی چھوڑ کر دیگر شہروں یا بیرون ملک منتقل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز کورنگی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) میں صنعتکاروں سے خطاب کے دوران کیا۔ تقریب میں کاٹی کے صدر جوہر قندھاری، ڈپٹی پیٹرن ان چیف زبیر چھایا، سینئر نائب صدر نگہت اعوان، نائب صدر مسلم محمدی، کائیٹ لمیٹڈ کے سی ای او زاہد سعید، سابق صدورو چیئرمین ایس ایم یحییٰ،گلزار فیروز، احتشام الدین، شیخ عمر ریحان، دانش خان، سمیت صنعتکاروں کی بڑی تعداد شریک تھے۔

(جاری ہے)

گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے مزید کہا کہ یا توحالات ایسے ہی چلنے دیں یا پھر ہم کوششیں کرکے مسائل حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ فنڈ سے سیالکوٹ کو تو حصہ مل جاتا ہے لیکن کراچی کو کچھ نہیں ملتا، اس طرح کے مسائل حل کرنے کیلئے مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہوں گی۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ ہمیں اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو دیکھنا اور ان سے سیکھنا ہوگا، کاٹی سمیت شہر بھر کے صنعتکاروں کو گورنر ہاؤس آنے کی دعوت دیتا ہوں، صنعتکار گورنر ہاؤس آئیں وہاں مل کر درپیش مسائل کی نشاندھی اور ان کے فوری حل پر بات کریں گے، وفاقی وزیر خزانہ اور متعلقہ محکموں کے سربراہوں کو بلائیں گے، وہ مسائل حل نہیں کریں گے تو خود وزیر اعظم شہباز شریف سے بات کروں گا۔

گورنر سندھ نے مزید کہا کہ وزیر اعظم معاشی ترقی کیلئے کوششیں کر رہے ہیں اور کشمیری بھائیوں کیلئے حکومت نے 23 ارب روپے آزاد کشمیر کی حکومت کو دئیے ہیں، ہمیں بھی درپیش مسائل حل کرنے کے لئے اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔گورنر ہاؤس میں شہریوں کیلئے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں، 50 ہزار سے زائد طلباء کو آئی ٹی کی تعلیم دے کر ہنرمند بنا رہیہیں جس میں نہ گورنر ہاؤس کا فنڈ استعمال کیا نہ سندھ حکومت سے کوئی رقم لی، تمام کام مخیر حضرات اور بزنس کمیونٹی کے تعاون سے کئے جارہے ہیں۔

قبل ازیں کاٹی کے صدر جوہر قندھاری نے کہا کہ کراچی میں بزنس کمیونٹی کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، پیداواری لاگت میں 37 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، صنعتکاروں کو مہنگی ترین بجلی اور گیس فراہم کی جارہی ہے، شرح سود خطہ میں سب سے زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ صنعتکار اپنی مدد آپ کے تحت صنعتی علاقوں کی بحالی کا کام کر رہے ہیں، جو کام حکومت کے ذمہ ہیں ان امور کو صنعتکارانجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں 10 سالہ جامع معاشی پالیسی انتہائی ناگزیر ہے۔ صدر کاٹی نے کہا کہ ٹیکس ریفارمز کی ضرورت ہے اس سلسلے میں تاجر و صنعتکار ہر ممکن تعاون کیلئے تیار ہیں۔ بجٹ کے سلسلے میں حکومت کو 72 صفحات پر مشتمل تجاویز ارسال کی ہیں جس کووزیر اعظم ہاؤس سے سراہا بھی گیا۔ جوہر قندھاری نے کہا کہ نجی شعبہ ملکی معاشی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔

تاہم شہر میں بڑھتے جرائم کے باعث سرمایہ کار اور صنعتکار پریشان ہیں، حکومت کی جانب سے خاطر خواہ سہولیات فراہم نہیں کی جارہی۔ ڈپٹی پیٹرن ان چیف زبیر چھایا نے کہا کہ کراچی میں نجی کمپنیوں اور صنعتوں سے 30 سے 40 فیصد تک افراد کو ملازمت سے نکالا جاچکا ہے جبکہ نئی انڈسٹری نہیں لگ رہی۔ انہوں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی حکومت کا احسن اقدام ہے، اور یہ معیشت کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔

زبیر چھایا نے مزید کہا کہ حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہی ہے لیکن جب تک مقامی سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کو اعتماد بحال نہیں ہوگا ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن نہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت بزنس کمیونٹی کی مشاورت سے پالیسی مرتب کرے۔ کائیٹ لمیٹڈ کے سی ای او زاہد سعید نے کہا کہ صنعتی علاقوں کے ترقیاتی کمپنیوں کے قانون میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت ترقیاتی کاموں کیلئے گرانٹ فراہم کرے گی اور صوبائی حکومتیں اتنا ہی مساوی فنڈ اس میں شامل کریں گی، جبکہ حقیقت میں وفاق کی جانب سے آج تک کوئی گرانٹ یا فنڈ نہیں ملا، سندھ حکومت کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مجموعی طور پر تقریباًایک ارب روپے سے زائد کا فنڈ دیا جس سے کورنگی صنعتی علاقے میں نصف خرچ میں اعلیٰ معیار کے ترقیاتی کام کئے جس کے وزیر اعلی سندھ بھی معترف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کو ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ(ای ڈی ایف) کی مد میں کوئی رقم نہیں دی جاتی، جبکہ صرف کراچی شہر سے 16 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہے، یہی نہیں کورنگی صنعتی علاقے کی ایک 4 کلومیٹر کی سڑک پر چلیں تو وہاں موجود کمپنیوں کی ایکسپورٹ سیالکوٹ سے زیادہ ہے لیکن بدقسمتی سے سیالکوٹ کو ای ڈی ایف کی مد میں رقم ملتی ہے لیکن کرکراچی کو محروم رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے ایکسپورٹرز انفرااسٹرکچر لیوی کی مًد میں بھی رقم ادا کرتے ہیں جسے کراچی کے انفرااسٹرکچر کی بہتری پر خرچ ہونا تھا لیکن وہ رقم بھی کراچی کو نہیں دی گئی۔ تقریب سے صدر ایف پی سی سی آئی کے معاون خصوصی شیخ عمر ریحان نے بھی تبادلہ خیال کیا۔