ملک بھر میں تر ک تمباکونوشی کی مؤثر خدمات و سہولیات فراہم کی جائیں، اے آر آئی

جمعرات 30 مئی 2024 19:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 مئی2024ء) آلٹرنیٹیو ریسرچ انیشیٹیو (اے آر آئی) اور اس کی ممبر تنظیموں نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے ملک بھر میں ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر بالغ تمباکونوشوں کو اپنی اس عادت کو ترک کرنے کی مؤثر خدمات و سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اے آرآئی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ارشد علی سید نے ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ بالغ تمباکونوش جو تمباکونوشی ترک کرنے سے قاصر ہیں، انہیں مدد کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق، سگریٹ نوشی کے مکمل خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ بالغ سگریٹ نوش کو ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ وہ اس عادت سے چھٹکارا پا لے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے نہ صرف ترک تمباکونوشی کی قومی ہیلپ لائن کی بڑے پیمانے پر تشہیر ضروری ہے بلکہ اس کے ذریعے فراہم کی جانے والی خدمات میں زیادہ بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے ضلع کی سطح ان خدمات و سہولیات کی فراہمی میں صوبائی حکومتوں کے کردارپر زور دیا ہے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صحت صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ اس لیے صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر بالغ تمباکونوشوں تک پہنچیں بالخصوص ان تک جو متعدد بار کوشش کرنے کے باوجود بھی سگریٹ نوشی جاری رکھے ہوئے ہیں، تمباکو نوشی کو ترک کرنے کے فوائد فوری اور زندگی بھر کے لئے ہیں جس دن تمباکونوش اپنی یہ عادت ترک کرتا ہے اسی دن اس کا جسم خود کو زہریلے مادوں سے پاک کرنا شروع کر دیتا ہے اور بحالی کے عمل کا آغاز ہو جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق سگریٹ نوشی چھوڑنے کے 20 منٹ بعد دل کی دھڑکن اور فشارخون میں کمی آجاتی ہے جبکہ بارہ گھنٹے بعد خون میں کاربن مونوآکسائیڈ کی مقدار معمول پر آجاتی ہے۔ 1-9 ماہ تک کے عرصہ کے دوران کھانسی اور سانس کی تکلیف میں کمی آجاتی ہے جبکہ ایک سال کے دوران دل کی بیماری کا خطرہ تمباکونوش کے مقابلے میں نصف رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ سے پندرہ سال تک کے عرصہ کے دوران فالج کا خطرہ کم ہوکر تمباکونوشی نہ کرنے والے افراد جتنا رہ جاتا ہے۔

ارشد علی سید کا کہنا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بالغ تمباکونوشوں کے لیے اپنی اس عادت کو مکمل طور پر چھوڑنے کے لیے سہولتیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروسز نے نکوٹین ریپلیسمنٹ تھراپی، نکوٹین ویپ، نکوٹین پاؤچز اور نسخے پر ملنے والی ادویات کو ترک تمباکونوشی کے مددگار ذریعوں کے طور پر شامل کیا ہے، پاکستان کواپنی ضروریات کے لحاظ سے ان مصنوعات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور بالغ تمباکونوشوں کے استعمال کی غرض سے ان کے لیے سنجیدگی کے ساتھ قواعد و ضوابط بنانے چاہیئں۔

پاکستان کی جانب سے 2005 میں ٹوبیکو کنٹرول پر عالمی ادارہ صحت کے فریم ورک کنونشن کی توثیق کو تقریباً دو دہائیوں کا عرصہ بیت چکا ہے مگر اس کے باوجود آج بھی ملک کو تمباکونوشی پر قابو کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ آج پاکستان میں تین کروڑ دس لاکھ افراد مختلف شکلوں میں تمباکو کا استعمال کرتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ملک کے45.5 فیصد گھرانوں میں تمباکو کا استعمال کیا جاتا ہے۔

تمباکو کا استعمال امیر گھرانوں کی بہ نسبت غریب گھرانوں میں زیادہ ہے۔ 37.9 فیصد امیر جبکہ 45.5 فیصد غریب گھرانوں میں تمباکو استعمال کیا جاتا ہے۔تمباکونوشی کرنے والے ان افراد میں زیادہ تر سگریٹ نوش ہیں۔ ملک میں ترک تمباکونوشی کی خدمات و سہولیات کے فقدان یا ان کی انتہائی کم مقدار میں دستیابی کے باعث تمباکونوش کو خود ہی یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اس نے اپنی اس عادت کو کیسے ترک کرنا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایک سال کے دوران تین فیصد سے بھی کم تمباکونوش اپنی اس عادت کو کامیابی کے ساتھ ترک کرتے ہیں۔ارشد علی سید نے کہا کہ اے آر آئی اور اس کی ممبر تنظیمیں ٹوبیکو کنٹرول کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے تمام اقدامات کی حمایت کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نوجوانوں اور وہ افراد جنہوں نے کبھی بھی تمباکونوشی نہیں کی، انہیں کم نقصان دہ مصنوعات سمیت تمباکو کی کسی بھی قسم کے استعمال سے دور رکھنے کے لیے کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔