’یوکرین سربراہی اجلاس شرمناک ہے‘، دائیں بازو کے سوئس رہنما

DW ڈی ڈبلیو اتوار 16 جون 2024 19:20

’یوکرین سربراہی اجلاس شرمناک ہے‘، دائیں بازو کے سوئس رہنما

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جون 2024ء) دائیں بازو کے قوم پرست سوئس گروپ نے دو روزہ یوکرین سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے پر خود سوئس حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ روس پر یوکرین کے خلاف جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا باعث ''شرمندگی‘‘ ہے اور یہ سوئٹزرلینڈ کی روایتی غیر جانبداری کے لیے نقصان دہ ہے۔

اس گروپ کے بقول غیر جانبداری سوئٹزرلینڈ کی خوشحالی کا ایک اہم حصہ اور آئین کا لازمی جُزو ہے۔

دائیں بازو کی سوئس پیپلز پارٹی (SVP) کی سرکردہ شخصیات نے دلیل دی ہے کہ سوئٹزرلینڈ کو اس ویک اینڈ پر روس کے بغیر اپنے ہاں یوکرین کانفرنس منعقد نہیں کرنی چاہیے تھی۔

SVP کے یوتھ ونگ کے سربراہ، نیلز فِشٹر نے روسی نشریاتی ادارے RT سے بات کرتے ہوئے کہا، ''یہ سب کچھ محض ڈھونگ ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے ملک کے لیے باعث شرمندگی۔‘‘

سوئٹزر لینڈ کے پر تعیش سیاحتی مقام بیرگن اسٹاک میں منعقدہ یوکرین اجلاس ایک گرما گرم بحث چھڑنے کا سبب بن گیا ہے۔ جس کا مقصد اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ آیا سوئٹزرلینڈ کو اپنی دیرینہ اور گہری جڑیں رکھنے والی پوزیشن ختم کر دینی چاہیے؟

اتوار 16 جون کو ختم ہونے والی کانفرنس میں مغربی طاقتیں اور دیگر اقوام موجود تھیں جو یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت اور دونوں ملکوں کے مابین جنگ کی انسانی قیمت پر اتفاق رائے ہونے کی کوششیں کرتی رہیں۔

SVP کے یوتھ ونگ کے سربراہ، نیلز فشٹر نے اپنے بیان میں کہا، ''روس کو اس کانفرنس میں مدعو نہ کر کے سوئس حکومت نے عالمی دباؤ کے آگے آنکھیں بند کر کے جھک جانے کا ثبوت دیا ہے۔‘‘

روسی نشریاتی ادارے RT کو بیان دیتے ہوئے نیلز فشٹر نے مزید کہا، ''سوئٹزرلینڈ نے یوکرین کو یہ حکم صادر کرنے کی اجازت دے کر کہ کسے اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا جا سکتا، اس کانفرنس کو زیلنسکی شو بنا دیا ہے۔

‘‘

ان کا مزید کہنا تھا،''اب ہم خطرے میں ہیں، اور یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ سوئٹزرلینڈ خود کو ایک عالمی جنگ کی طرف کھینچنے کی اجازت دے رہا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ سوئٹزرلینڈ نے یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلینسکی کے کہنے پر کانفرنس کی میزبانی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اُدھر بیرن حکام کا کہنا ہے کہ روس کو اس عمل میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن ماسکو نے بار بار اس کانفرنس میں حصہ لینے میں عدم دلچسپی ظاہر کی اور یہی جواز بنا ماسکو کو دعوت نہ دینے کا۔

کریملن نے ماسکو کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کو اپنانے کی وجہ سے سوئٹزرلینڈ کو ایک کھلا دشمن قرار دیا ہے اور خاص طور پر قیام امن کی کوششوں میں ثالثی کے لیے اُسے نااہل قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے یورپ کی دو دیگرتاریخی طور پر غیر جانبدار ریاستوں، سویڈن اور فن لینڈ نے نیٹو میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں منعقدہ یوکرین میں قیام امن سے متعلق پہلی سربراہی کانفرنس دراصل روسی صدر کی طرف سے کییف سے اس مطالبے کے بعد کہ اگر وہ ماسکو کے ساتھ امن مذاکرات چاہتا ہے تو ہتھیار ڈال دے، منعقد ہوئی جس میں عالمی رہنماؤں نے شرکت کی۔

ک م/ ا ب ا(روئٹرز)