جرمنی سے ملنے والے دو فوسلز سے بن مانس کی دو نئی انواع دریافت

DW ڈی ڈبلیو اتوار 16 جون 2024 19:40

جرمنی سے ملنے والے دو فوسلز سے بن مانس کی دو نئی انواع دریافت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جون 2024ء) 7 جون سن 2024 کو سائنسی جریدے ''پبلک لائبریری آف سائنس‘‘ شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جنوبی جرمن صوبے باویریا سے ملنے والی چند باقیات سے بن مانس کی دو مختلف سائز کی انواع دریافت ہوئی ہیں۔ یہ بن مانس لاکھوں سال پہلے یورپ میں ایک ساتھ رہتے تھے۔

جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹیوبنگن (Tübingen) کے محققین کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ قدیم دور کے بن مانس کی دو انواع، جن کا سائز اور خوراک دوسری انواع سے مختلف تھا، وہ افریقہ سے باہر ایک ساتھ رہتے پائے گئے ہیں۔

لہذا انہیں یورپ سے دریافت ہونے والی نئی انواع ''برونیئس‘‘ (Buronius) کا نام دیا گیا ہے۔

فوسلز جرمنی میں کہاں سے دریافت ہوئے؟

سن 2019 میں ماہرین ِ آثار قدیمہ کو جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا سے لاکھوں برس قبل پائی جانے والی چند انواع کی باقیات (فوسلز) ملے تھے، جو اب ناپید ہو چکی ہیں۔

(جاری ہے)

یہاں سے ملنے والی 37 ہڈیوں میں بن مانس کے دو دانت یا داڑھ اور گھنٹے کا اوپری حصہ بھی شامل تھے۔

جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹیوبنگن سے وابستہ ماہرحیاتیات ماڈلین بوہمے (Madelaine Bohme) اور ایبر ہارڈ کارلس (Eberhard Karls) کی قیادت میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ان فوسلز پر تحقیق کی، جو گزشتہ ہفتے ہی پبلک لائبریری آف سائنس جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ان فوسلز کی درجہ بندی گیارہ اعشاریہ چھ سال قبل پائی جانے والی بن مانس کی دو معدوم انواع کے طور پر کی گئی ہے۔

ماڈلین بوہمے کے مطابق باویریا کی دلدلی مٹی سے جو فوسلز ملے تھے ان میں بن مانس کی ایک جزوی اوپری داڑھ اور گھٹنے کا اوپری حصہ شامل تھے جسے ''نی کیپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک کم عمر اور نابالغ بن مانس کی باقیات تھیں۔ اس سے تقریبا 25 میٹر کے فاصلے پر کھدائی سے ایک اور جزوی داڑھ ملی تھی، جو ایک بالغ اور نسبتا بڑے سائز کے بن مانس کی تھی۔

یہ بن مانس مختلف کیسے ہیں؟

ماڈلین بوہمے بتاتی ہیں کہ ان فوسلز پر مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ برونیئس جسامت میں کافی چھوٹے تھے اور ان کا وزن بمشکل دس کلوگرام تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی ٹیم کا خیال ہے کہ قدیم دور میں پائے جانے والے یہ شاید سب سے چھوٹے سائز کے بن مانس تھے۔

ماڈلین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ عموما کسی نوع کا طرز زندگی جاننے کے لیے زیادہ فوسلز کی ضرورت ہوتی ہے لیکن برونیئس کے معاملے میں صرف چند ہڈیوں سے ان کے متعلق کافی معلومات حاصل ہوئیں ہیں۔

مثلا داڑھ کی باقیات کے جائزے سے معلوم ہوا کہ بن مانس پتلی نرم غذا جیسے درختوں کے پتے اور پھل کھاتے تھے۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ اسی طرح فوسلز سے ملنے والے گھٹنے کے اوپری حصے پر تحقیق سے پتا لگا کہ بن مانس درختوں پر چڑھنے میں ماہر تھے کیونکہ یہ حصہ قدرے موٹا لیکن چھوٹے سائز کا تھا۔ لہذا قوی امکان ہے کہ یہ بن مانس گرمیوں اور خزاں کے موسم میں درختوں پر رہتے ہوں اور سبزی خور ہوں۔

ماڈلین کے مطابق اس سے پہلے جو باقیات جرمنی کے اسی علاقے سے ملی تھیں ان کی داڑھ کی ساخت مختلف تھی۔ ان کے دانتوں کی بناوٹ سے لگتا تھا کہ وہ بڑے سائز کے بن مانس تھے جو سخت خوراک جیسے پھلیاں، جڑوں والی سبزی اور گوشت وغیرہ کھاتے تھے۔

افریقہ سے یورپ میں بن مانسوں کا ارتقاء

ماڈلین بوہمے بتاتی ہیں کہ تقریبا 15 ملین سال قبل بن مانس کی کئی انواع افریقہ سے ناپید ہونے لگی تھیں، جس کے بعد یورپ میں یہ انواع تیزی سے پھیلتی چلی گئیں۔

ان کے مطابق اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ یورپ کے متنوع ایکو سسٹم میں بتدریج ایسے تبدیلیاں ہوئیں، جن کے باعث یہ علاقے بن مانس کی رہائش کے لیے موزوں ہوتے گئے۔ یا پھر بن مانس کی ساخت میں ایسی ارتقائی تبدیلیاں ہوئیں، جو یورپ میں بسنے کے لیے راہ ہموار کرتی گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دونوں میں سے جو بھی صورتحال رہی ہو اس کے تصدیق کے لیے ان کی ٹیم کو مزید فوسلز کی ضرورت ہے۔

ماڈلین کہتی ہیں کہ مزید تحقیق ابھی جاری ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ زمین پر جانداروں اور انسان کا ارتقاء ایک نہایت پیچیدہ عمل ہےے، '' اس سارے منظر نامے سے ایک بات بالکل واضح ہے کہ ہم ابھی تک ان ارتقائی گتھیوں کو سلجھا نہیں سکے۔ اس کی ایک مثال افریقہ سے یورپ میں برونیئس کی ہجرت یا ارتقا ء ہے، جس کی کئی گم شدہ کڑیوں کو ملانے کے لیے ان کی ٹیم مستعد ہے۔‘‘

متعلقہ عنوان :