اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2024ء) غزہ شہر کے وسطی علاقے میں واقع ایک اسکول پر آج ہفتے کی صبح اسرائیل کی جانب سے کیے گئے ایک فضائی حملے میں میں ساٹھ سے سے زائد افراد کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ غزہ میں عسکریت پسند تنظیم حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق یہ دس ماہ سے جاری غزہ پٹی میں جاری جنگ کے دوران کیے گئے مہلک ترین اسرائیلی حملوں میں سے ایک تھا۔
اسرائیلی فوج نے حملے کا اعتراف کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اسکول کے اندر حماس کے ایک کمانڈ سینٹر کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل متعدد مرتبہ کہہ چکا ہے کہ حماس کے جنگجو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ادھر غزہ میں حماس کے طبی ذرائع ایمرجنسی سروس نے بتایا ہے کہ وسطی غزہ شہر میں واقع تبین نامی اسکول پر حملے میں 47 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
(جاری ہے)
یہ اسکول غزہ کے تقریباً تمام اسکولوں کی طرح، ان لوگوں کے لیے ایک پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے، جو جنگ کی وجہ سے اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
لوگوں کو بچانے کے لیے کام کرنے والے ایک عینی شاہد ابو انس کے مطابق ہفتے کی صبح طلوع آفتاب سے قبل یہ حملہ بغیر کسی پیشگی وارننگ کے بغیر اس وقت کیا گیا، جب لوگ اسکول کے اندر واقع ایک مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے۔
اس عینی شاہد کا کہنا تھا، ''وہاں لوگ نماز پڑھ رہے تھے، وہاں لوگ نہا رہے تھے اور اوپری منزل پر لوگ سو رہے تھے، جن میں بچے، عورتیں اور بوڑھے شامل تھے۔‘‘غزہ
میں حماس کے زیر انتظام محکمہ شہری دفاع کے ترجمان محمود باسل نے بتایا کہ تین میزائل اسکول اور مسجد کے اندر گرے، جہاں تقریباً 6000 بے گھر افراد جنگ سے پناہ لیے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا، '' بغیر کسی وارننگ کے ان پر میزائل گرے۔ پہلا میزائل گرا اور پھر دوسرا۔ (جس کے بعد) ہم نے انسانی جسمانی اعضاء برآمد کیے۔‘‘مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ
باسل نے کہا کہ مرنے والوں میں سے بہت سے لوگ ناقابل شناخت تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں توقع ہے کہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
ہفتے کے روز اپنے بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ یہ اسکول ایک مسجد کے ساتھ واقع ہے، جو غزہ شہر کے رہائشیوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ، جرمنی اور دیگر ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ حماس کے جنگجو اسرائیل کو بطور ریاست بھی تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
غزہ
کے اسکول پر حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب امریکی، قطری اور مصری ثالثوں نے جنگ بندی کے معاہدے کے لیے دونوں فریقوں یعنی اسرائیل اور حماس پر دباؤ میں اضافہ کیا ہے تاکہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔تہران میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ اور بیروت میں حزب اللہ کے ایک سینئر کمانڈر کے قتل کے بعد خطے میں جاری جنگ پھیلنے کے خدشات مزید زور پکڑ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ
کے مطابق چھ جولائی تک غزہ پٹی کے 564 اسکولوں میں سے 477 جنگ کے دوران براہ ر.است حملوں نشانہ بن چکے تھے انہیں نقصان پہنچا تھا۔جون میں وسطی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کو پناہ دینے والے ایک اور اسکول پر اسرائیلی حملے میں کم از کم 33 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں 12 خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیل نے غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کا الزام حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گروپ اسکولوں اور رہائشی محلوں کو اپنی کارروائیوں اور حملوں کے لیے اڈوں کے طور پر استعمال کرکے عام شہریوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی جنگی مہم میں 39,600 سے زائد فلسطینی ہلاک اور 91,700 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ غزہ کی موجودہ جنگ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ کے حملے سے شروع ہوئی، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 دیگر کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ ان حملوں کے جواب میں اسرائیلی دفاعی افواج نے حماس کی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔
غزہ کی جنگ سے پہلے غزہ کی 2.3 ملین آبادی میں سے 1.9 ملین سے زیادہ اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ افراد اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے بار بار مختلف علاقوں سے بھاگنے پر مجبور رہے ہیں۔ اب اس ساحلی پٹی میں زیادہ تر لوگ تقریباً 50 مربع کلومیٹر (19 مربع میل) کے رقبے میں خیمے کے کیمپوں میں بھرے ہوئے ہیں۔
ش ر⁄ م ا، ع ب (اے پی)