اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 ستمبر 2024ء) یہ بل ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب حکومت کو اسرائیل-غزہ جنگ کے بعد نفرت کے واقعات میں اضافے کا چیلنج درپیش ہے۔ حکومت نے گزشتہ سال نازی سلامی اور دہشت گرد گروپ کی علامتوں کی عوامی نمائش پر پابندی عائد کردی تھی۔
اٹارنی جنرل مارک ڈریفس نے ایک بیان میں کہا کہ "کسی بھی آسٹریلوی کو اس وجہ سے نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے کہ وہ کون ہیں یا وہ کس چیز پر اعتقاد رکھتے ہیں۔
"بچوں کے خلاف جنسی جرائم: سابق آسٹریلین بشپ پر فرد جرم عائد
آسٹریلیا
کا حزب اللہ کو ' دہشت گرد تنظیم' قرار دینے کا عندیہانہوں نے کہا، "ہم فخر کے ساتھ ایک متحرک، کثیر الثقافتی اور متنوع کمیونٹی میں رہتے ہیں جس کی ہمیں حفاظت کرنی اور مضبوطی دینی چاہیے۔
(جاری ہے)
"
نئے قانون میں کیا ہے؟
اس بل میں کسی گروپ یا شخص کے خلاف طاقت یا تشدد کے استعمال کی دھمکی دینے پر اور اگر کسی شخص کو خطرہ ہے کہ دھمکی پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے تو قصوروار شخص کو پانچ سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
اگر دھمکیوں سے حکومت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو مجرموں کو سات سال قید ہو سکتی ہے۔نسل پرستی کے خلاف کانفرنس
لیبر حکومت نے کہا کہ وہ جمعرات کو "ڈاکسنگ" سے نمٹنے کے لیے ایک علیحدہ قانون سازی بھی کرے گی، جو کسی کے ذاتی ڈیٹا کو آن لائن بدنیتی پر مبنی ریلیز کر کے دھمکی دینے کے متعلق ہے۔ اس قانون کے تحت مجرموں کو چھ سال تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم انتھونی البینیز نے اسرائیل مخالف گروپوں کی جانب سے سینکڑوں یہودی آسٹریلوی باشندوں کے نام، سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور دیگر ذاتی تفصیلات آن لائن شائع کیے جانے کے بعد فروری میں ڈوکسنگ کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
اینٹی ڈوکسنگ بل میں متاثرین کے لیے "سنگین رازداری کے حملوں" کے لیے مقدمہ دائر کرنے کی شق شامل ہو گی حالانکہ صحافیوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس سے چھوٹ دی جائے گی۔
ج ا ⁄ ص ز (روئٹرز)