الز ا مات کا جو اب نہ دے سکنے والے فوت شد ہ شخص کو کا نا م لیکر الزا م تر اشی کر نا اخلا قا درست نہیں ، اما ن اللہ کنر انی

منگل 24 ستمبر 2024 20:40

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 ستمبر2024ء) سپر یم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر ا ما ن اللہ کنر انی نے اپنے بیا ن میں کہا ہے کہ میر ی نا قص رائے میں کسی فوت شد ہ شخص کو جو اپنے الز ا مات کو جو اب نہ دے سکے اس کے بارے میں اس کا نا م لیکر الزا م تر اشی کر نا اخلا قا درست نہیں ہے کیو نکہ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا صو بے کے ایک اعلیٰ سر کاری وا نتظا می شخصیت پا کستان کے با نیو ں میں سے ایک بڑ ی شخصیت جس کی شہادت کے دن تک با قا عد ہ تر جما ن رہا ہوں اس کے بعدحالات و واقعات کے تسلسل سے ھٹ کر ماضی کی قٴْربت و رغبت و تعلق کے پس منظر میں اس کی ذات و قبائلی تشخص سے قطع نظر سیاسی طور پر اس کا دفاع کرنا آج بھی اپنا اخلاقی فرض و قرض سمجھتا ھوں اس کے ترجمان کی حیثیت سے مجھے اس کی سیاسی فکر و سوچ کے ادراک میں شامل حال رہا ھوں اس لئے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اس الزام کو رد کرتاہوں کہ نواب محمد اکبر خان بٴْگٹی شہید نے کبھی ریاست کے خلاف کسی جنگ کا اعلان کیا تھا نہ ہی انہوں نے اس کا آغاز کیاحقیقت سب پر عیاں ہے کہ 1990-2006 تک جمہوری وطن پارٹی ایک سیاسی و جمہوری پارٹی تھی اور آج بھی اس کے وجود کو ریاست نے ریاست مخالف Declare نہیں کیا اسی پارٹی کے شہید نواب بگٹی سربراہ تھے تاہم ماضی کی حکومتی رویوں و برتاؤ سے دلبرداشتہ ہو کرانہوں نے قطعی ایک سیاسی پوزیشن و موقف و مزاحمت اختیار کی کہ ہم سے مزاکرات کے نام پر دہوکہ کیا گیا معاہدوں کے نام پر وعدہ خلافی کی گئی امن کے نام پر ہم پر یلغار کیا گیا عزت و ناموس کے نام پر ہماری ننگ کو ہماری سرزمین پر تار تار کیا گیا روزانہ ہماری عورتوں بچوں و ضعیفوں کی سرعام آتے جاتے تلاشی لے کر ہماری عزت نفس کو خاک میں ملایا جاتا رہا ھماری زمینوں کوہماری مرضی کے بغیر سر کاری تحویل میں لیا جاتا رہا ہم 4 گیس فیلڈ سوئی و پیر کوہ و لوٹی و اوچ کے مالک و ھم ریکوڈک و 780 کلو میٹر ساحل کے وارث اپنے ہی گیس فیلڈ کے کنویں کی ایک چوکیداری کیلئے بھی وفاق کے محتاج جبکہ غیر یہاں کی دولت سے بیرون ملک جائیدادیں خریدیں ہماری شناخت سے لاعلم اس کو تسلیم کرنے کی بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر راج و حٴْکمرانی کا عمل جاری رکھیں تب ایسے حالات میں اپنے انسانی و شہری و آئینی و قانونی و قبائیلی و اسلامی حقوق کے دفاع میں سینہ تان کر کھڑے ھونے کو’’جنگ’’ نہیں ‘‘غیرت’’کا مینار سمجھ کر وطن ڈیھ کی پٴْکار پر کھڑا ھونا ہر بلوچ ہی نہیں بلکہ ہر قومی ھمیت رکھنے والے کی آرزو و دلی تمنا ہے اس لئے محترم معزز معترض شخصیت صاحب شہید نواب بٴْگٹی سے اختلاف کا شروع سے حق رکھتے تھے اب بھی ضرور رکھیں مگر الزام کی بجائے اخلاق کو ملحوظ ،دعوؤں کی بجائے اپنی کارکردگی کو اس سے بہتر ثابت کریں جب نواب بگٹی شہید کی موجودگی میں حکومت کا ڈیرہ بگٹی کا انتظامی و ترقیاتی خرچہ کروڑوں روپے میں تھا اب اربوں روپے خرچ کرکے بھی امن و آشتی کا وہ دور واپس نہیں لوٹایا جاسکتا تو فرق صاف ظاہر انجام دیوار پر لکھا ہے ضد و انا کی بجائے باھمی رواداری و ھم آہنگی کے فروغ کیلئے نیلسن منڈیلا کے روئیے اپنانے کی ضرورت ہے ورنہ چہ گویرا کے کردار کے دعوے بھی تاریخ کے انہیں اوراق میں تحریر ہے فیصلہ تیرا تیرے ہاتھ میں ہے ۔