اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 نومبر 2024ء) کرسٹیز کی جانب سے فروخت کیا گیا کارٹیئر کا زمرد اور ہیروں سے بنا یہ بروچ، جسے پینڈنٹ کے طور پر بھی پہنا جا سکتا ہے، نے فیشن ہاؤس بلگاری کے بنائے ان زیورات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو معروف اداکار رچرڈ برٹن نے اپنی ساتھی اداکارہ الزبتھ ٹیلر کو شادی کے تحفے کے طور پر دیا تھا اور جسے اب تک سب سے قیمتی زمرد کا اعزاز حاصل تھا۔
پرنس صدر الدین آغا خان نے 1960 میں کارٹیئر سے یہ بروچ بنانے اور اس میں 20 مارکیز کٹ ہیرے لگانے کا کہا تھا۔ انہوں نے یہ بروچ برطانوی ماڈل اور سوشلائٹ نینا ڈائر کے لیے بنوایا تھا جن سے ان کی مختصر مدت کے لیے شادی ہوئی تھی۔ نینا ڈائر کی والدہ بھارتی تھیں جب کہ ان کے والد اسٹینلی ڈائر برطانوی تاجر تھے۔
(جاری ہے)
دنیا
کا دوسرا سب سے بڑا گلابی ہیرا سترہ ملین یورو میں نیلامنینا ڈائر نے جانوروں کے بہبود کے لیے رقم اکٹھی کرنے کے لیے 1969 میں اس زمرد کو نیلام کر دیا تھا۔
یہ نیلامی سوئٹزر لینڈ میں جینیوا جھیل کے کنارے ہونے والی کرسٹیز کی پہلی نیلامی تھی۔ اسے زیورات فروخت کرنے والی کمپنی وین کلیف اینڈ آرپلز نے خریدا اور چند سال بعد یہ امریکہ کے ہیری ونسٹن کے ہاتھوں میں چلا گیا، جنہیں 'کنگ آف ڈائمنڈز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سابقہ ریکارڈ 6.5 ملین ڈالر کا
کرسٹیز کے جیولری کے شعبے کے سربراہ میکس فاوسیٹ نے زمرد کی نیلامی کے بارے میں کہا کہ "زمرد اس وقت کافی مقبول ہیں، اور یہ تمام معیار پر پورا اترتا ہے۔
"انہوں نے مزید کہا کہ "ہمیں اس معیار کا زمرد ہر پانچ یا چھ سال میں ایک بار نیلامی کے لیے دیکھنے کو مل سکتا ہے۔"
پکاسو کی تخلیق، دنیا کا مہنگا ترین فن پارہ
ہیروں کی نیلامی کا سابقہ ریکارڈ ہالی ووڈ کی عظیم اداکارہ الزبتھ ٹیلر کے مشہور زیورات کے نام ہے، جو نیویارک میں ہونے والی نیلامی میں 6.5 ملین ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔
پرنس صدرالدین آغا خان کون تھے؟
پِرنس صدرالدین اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کے چچا تھے۔ وہ سر سلطان محمد شاہ آغا خان اور شہزادی آندری آغا خان کے بیٹے تھے۔ ان کی پیدائش 17 جنوری 1933 کو پیرس میں ہوئی تھی۔ انہوں نے دو شادیاں کی، لیکن ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔
ایک فرانسیسی نژاد سیاستدان کی حیثیت سے انہوں نے 1966 سے 1977 تک اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے طور پر خدمات انجام دیں، اس دوران انہوں نے ایجنسی کی توجہ یورپ سے باہر کی طرف مرکوز کی۔
وہ انیس سو اٹھاسی سے لے کر انیس سو نوے تک افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کی اقتصادی اور انسانی امداد کے کوآرڈینیٹر رہے۔پرنس صدرالدین مہاجرین کے پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تعاون کے حامی تھے۔ ماحولیاتی مسائل میں دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے 1970 کی دہائی کے اواخر میں بیلریو فاؤنڈیشن قائم کیا۔
وہ اسلامی آرٹ کے بھی شوقین تھے اور ان کے پاس قرآن کریم کے نادر نسخوں کے علاوہ ترکی، ایران اور بھارت میں بنائے گئے آرٹ کے نمونے موجود تھے۔
پرنس صدرالدین کا 70 سال کی عمر میں کینسر کے باعث انتقال ہو گیا اور وہ سوئٹزرلینڈ میں مدفون ہیں۔
ج ا ⁄ ص ز (اے ایف پی)