اسلامی نظریاتی کونسل اور برتھ ڈیفیکٹ فائونڈیشن کے زیر اہتمام خنثی کے جنس کے تعین کے حوالہ سے آگاہی اجلاس

جمعرات 5 دسمبر 2024 21:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 دسمبر2024ء) اسلامی نظریاتی کونسل اور برتھ ڈیفیکٹ فائونڈیشن کے زیر اہتمام خنثی کے جنس کے تعین کے حوالہ سے آگاہی اجلاس کا انعقاد ہوا۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کی۔ اجلاس سے ڈاکٹر افضل شیخ، ڈاکٹر انصر جاوید نے خنثی کے تعین جنس کے علاج کے بارے آگاہی دی۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں منعقدہ آگاہی اجلاس میں چیف سرجن برتھ ڈیفیكٹ فاونڈیشن ڈاكٹر افضل شیخ نے حاضرین كو اس حوالے سےتفصیلی بریفنگ دی اور آگاہ كیا كہ طبی لحاظ سے ہر انسان یا تو مرد ہوتا ہے یا عورت ہوتا ہے۔

جن افراد میں پیدائشی طور پر كوئی نقص ہوجیسا كہ زنانہ و مردانہ علامات دونوں موجود ہوں یا كوئی ایسی صورت ہو كہ كچھ بھی واضح نا ہو تو طبی نكتہ نظر سے ایسے افراد كا چیك اپ كركے نا صرف یہ بتایا جا سكتا ہے كہ یہ مردانہ یا زنانہ علامات میں سے كس كا حامل ہے بلكہ بذریعہ سرجری ان كی غالب جنس كا تعین بھی كیا جاسكتا ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر انصر جاوید سائیکالوجسٹ چیئرمین برتھ ڈیفیکٹ فائونڈیشن اور طاہرہ جاوید چوہدری ایچ او ڈی برتھ ڈیفیکٹ فائونڈیشن نے پیدائشی طور پر مختلف نقائص و بیماریوں کا ذکر کیا اور ٹرانس جینڈر اور خنثی (intersex) کے درمیان فرق کو واضح کیا۔

اجلاس کے شرکاء کو آگاہ کیا گیا کہ ٹرانس جینڈر فرد پیدائشی طور مکمل صحت یاب پیدا ہوتا ہے محض دماغ میں ایک مادہ (gender dysphonia) پیدا ہونے کی وجہ سے وہ خود کو مخالف جنس کا فرد تصور کرنے لگتا ہے، ایسے افراد کا نفسیاتی طور پر علاج کیا جاتا ہے جبکہ خنثی افراد پیدائشی طور پر کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، اس کا علاج سرجری کے ذریعے کرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ اسلامی نظریاتی كونسل بھی اپنی سفارش میں واضح كر چكی ہے كہ كسی فرد کو اپنی واضح جنس کو تبدیل كرنا جائز نہیں ہے لیكن اگر جنس میں ابہام ہو تو علاج و سرجری كے ذریعے اس فرد كی جنس کا تعین كیا جا سكتا ہے۔ ٹرانس جینڈر كی اصطلاح ایك غلط اصطلاح ہے،اس كا استعمال نہیں ہونا چاہئے كیونكہ اس كے ضمن میں ایسے افراد بھی شامل كئے جاتے ہیں جو حقیقی مرد یا حقیقی عورت ہوتے ہیں لیكن محض باطنی احساسات كی بنیاد پر خود كو مخالف جنس كا فرد تصور كرتے ہیں۔

ایسے مخصوص افراد جن میں پیدائشی طور پر كوئی نقص ہو،ان كے لئے خنثی(intersex) كا لفظ استعمال كیا جائے۔اپنی جنس كی از خود تعین (self-perceived identity) كی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔اسلامی تعلیمات كے مطابق ہر فرد كی جنس پیدائشی طور اللہ تعالی كی طرف سے طے شدہ ہوتی ہے،لہذا محض اپنے باطنی احساسات كی بنیاد پر اس پیدائشی جنس كے برعكس اپنی شناخت بیان كرنا شرعی احكام سے متصادم ہے۔

اور یہ ایك ذہنی مرض كا شاخسانہ ہے جس كو جینڈر ڈسفوریا (gender dysphoria)كہا جاتا ہے، طبی ماہرین اس مرض كا علاج كر سكتے ہیں ۔ علامہ طاہر محمود اشرفی، علامہ افتخار حسین نقوی نے اور ڈاکٹر قبلہ ایاز، سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی گفتگو کی۔ دیگر شرکاء میں مفتی ضمیر احمد ساجد ،مولانا تنویر احمد علوی، ڈاکٹر انعام اللہ، ڈاکٹر غلام دستگیر شاہین اور مفتی غلام ماجد بھی شامل تھے۔

اجلاس میں تجویز کیا گیا کہ ایسی ذہنی مرض كے لئے ملك مختلف شہروں میں باقاعدہ ہسپتال یا ہسپتالوں میں بحالی سینٹرز قائم كئے جانے چاہیئں۔ایسے مریض افراد یا پیدائشی طور پر ناقص افراد كو گھر سے نكالا جانا یا ان پر تشدد كرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔اس بابت سخت قوانین بنائے جائیں اور والدین كو پابند كیا جائے كہ وہ ایسے افراد كو خاندان میں شریك ركھیں اور ان كے علاج و معالجہ كے لئے كاوش كریں۔

صنف اور جنس كو اپنے زعم كے مطابق الگ الگ كرنا شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے،شرعی ماہرین كی طرح طبی ماہرین بھی ان دونوں اصطلاحات میں فرق كے قائل نہیں ہیں۔اسلامی تعلیمات كے مطابق كسی مرد كو عورت كی اور كسی عورت كو مرد كی مشابہت اختیار كرنے كی ممانعت ہے،لہذا جو لوگ ایسا تشبہ اختیار كرتے ہیں وہ شرعی لحاظ سے ناجائز كام كے مرتكب ہیں۔اس حوالے سے عوامی سطح پر وسیع پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے۔

متعلقہ عنوان :