کلاز ڈی کے ہوتے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار

جب سپریم کورٹ بیٹھ جائے تو پھر وہ مکمل انصاف کا اختیار بھی استعمال کرسکتی ہے، سپریم کورٹ کا کسی پارٹی کے دلائل پر انحصار لازمی نہیں ہوتا؛ فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیس کی سماعت میں ریمارکس

Sajid Ali ساجد علی منگل 11 مارچ 2025 16:38

کلاز ڈی کے ہوتے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جا سکتا ہے؟ ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 11 مارچ 2025ء ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہتے ہیں کہ کلاز ڈی کے ہوتے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جا سکتا ہے؟ یہی ایک سوال میرے دماغ میں اٹکا ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی جہاں سماعت کے آغاز پر دلائل دیتے ہوئے وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ’سلمان اکرم راجہ اور اور عزیر بھنڈاری ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں ایف بی علی کیس پر بات کی، ایف بی علی کیس کا وہ متعلقہ پیراگراف آپ کے سامنے رکھتا ہوں، ایف بی علی کیس کو جس طرح سے دوسری طرف نے اپنے دلائل میں بیان کیا وہ کیا ہی نہیں جا سکتا تھا‘۔

(جاری ہے)

اس پر ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’جب سپریم کورٹ بیٹھ جائے تو پھر وہ مکمل انصاف کا اختیار بھی استعمال کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کا کسی پارٹی کے دلائل پر انحصار لازمی نہیں ہوتا، آئین کے آرٹیکل 8(3) اے کے تحت قوانین میں بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے، اس کے تحت وہ قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں کالعدم نہیں قرار دیئے جاسکتے، 1962ء کے آئین میں آرٹیکل 6 اور 1973ء کے آئین میں آرٹیکل 8 ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایف بی علی کیس میں کہا گیا آرمڈ فورسز کے ارکان پر بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے، ایف بی علی کیس کلاز ڈی کی بات کرتا ہے کہ اس کے تحت شہریوں کو بنیادی حقوق حاصل ہوں گے، پھر ایف بی علی کیس کے تناظر میں کلاز ڈی کے ہوتے ہوئے شہریوں کا فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جا سکتا ہے؟ یہی سوال ہے جو میرے دماغ میں اٹکا ہوا ہے‘، بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔