مقامی تاجروں، سول سوسائٹی کے ارکان نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ترقی کے بھارتی دعوئوں کو مسترد کردیا

کشمیریوں کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کرکے ترقی کی جھوٹی خبریں پھیلانے کا مقصدعلاقے پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو جواز فراہم کرنا ہے

اتوار 16 مارچ 2025 14:00

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 مارچ2025ء)غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں مقامی تاجروں، سول سوسائٹی کے ارکان اور سیاسی مبصرین نے معاشی ترقی اور خوشحالی کے بارے میں بھارت کے کھوکھلے دعوئوں کو بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے محض ایک پروپیگنڈاقراردیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق انہوں نے کہاکہ بھارت مقبوضہ علاقے میں امن اور ترقی ظاہرکرنے کے لیے سرگرمی سے رپورٹیں جاری کر رہا ہے اور میڈیا مہم چلا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرکے ترقی کی جھوٹی خبریں پھیلانے کا مقصدعلاقے پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو جواز فراہم کرنا ہے۔تاہم مقامی کاروباری مالکان اور کارکنوں کا اصرار ہے کہ یہ دعوے زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔

(جاری ہے)

سرینگر کے ایک تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ زمینی صورت حال ایک مختلف کہانی بیان کرتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ دکانیں بند ہو رہی ہیں، کاروبار مشکلات سے دوچار ہے اور بے روزگاری اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔ کوئی حقیقی ترقی نہیں ہے، صرف جبر ہے۔سول سوسائٹی کے ارکان نے کہا کہ بھارتی حکومت علاقے میں اقتصادی ترقی کی خوشنما تصویر پیش کرکے بین الاقوامی برادری کو گمراہ کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کے ایک کارکن نے کہاکہ نام نہاد ترقی کا بیانیہ دھوکہ دہی کا ایک اور طریقہ ہے۔

بھارت جھوٹی ترقی دکھا کر اپنے قبضے کو جواز فراہم کرنا چاہتا ہے، لیکن حقیقت بدستور سنگین ہے۔انہوں نے علاقے میںآبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے ایک وسیع حکمت عملی کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ایک تاجر نے بتایاکہ بھارتی سرمایہ کاروں کے لیے دروازے کھولے جا رہے ہیں جبکہ کشمیری کاروبار متعدد رکاوٹوں اور وسائل تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 5اگست 2019کو دفعہ370کی منسوخی نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ تجزیہ کاروںنے سوال اٹھایا کہ ایک ایسے علاقے میں امن اور ترقی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے جس کو دنیا کے سب سے زیادہ فوجی جمائو والے علاقے میں تبدیل کیاگیا ہو۔