اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 اپریل 2025ء) بنگلہ دیش کے جنید اختر کی عمر تو 12 برس ہے لیکن اس کے خون میں بہتے زہریلے سیسے نے اس کی نشو و نما کے عمل کو متاثر کیا ہے اور یہ اپنی عمر سے کئی سال چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ جنید ان 35 ملین بچوں میں سے ایک ہے، جن کے جسم میں لیڈ کی خطرناک سطح موجود ہے۔ یہ تعداد اس جنوبی ایشیائی ملک کے تمام بچوں کا تقریباً 60 فیصد بنتی ہے۔
اس کی وجوہات تو مختلف ہیں لیکن جنید کی والدہ بٹھی اختر اپنے بیٹے کے عارضے کا ذمہ دار ایک بند ہو جانے والی فیکٹری کو ٹھہراتی ہیں، جو منافع کے لیے پرانی گاڑیوں کی بیٹریوں کو توڑتی اور ری سائیکل کرتی تھی۔ اس عمل نے اس چھوٹے سے گاؤں کی ہوا اور زمین کو زہر آلود کر دیا تھا۔
بٹھی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''یہ عمل رات کو شروع ہوتا تھا اور پورا علاقہ دھوئیں سے بھر جاتا تھا۔
(جاری ہے)
طبی ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ جنید کے خون میں لیڈ کی مقدار عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ اس معیار سے دگنی تھی، جو چھوٹے بچوں میں سنگین اور شاید ناقابل واپسی ذہنی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
بٹھی کا کہنا ہے، ''دوسری جماعت سے وہ ہماری بات نہیں سنتا تھا، اسکول جانا نہیں چاہتا تھا۔‘‘ وہ یہ انٹرویو دیتے وقت بھی اپنے بیٹے کے پاس بیٹھی تھیں، جو اپنے گھر کے صحن کو خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا، ''وہ ہر وقت روتا بھی رہتا تھا۔‘‘سیسے کی زہریلی آلودگی کا بحران
بنگلہ دیش میں لیڈ کی زہریلی آلودگی کوئی نیا مسئلہ نہیں اور اس کے اسباب متعدد ہیں۔
ان میں سرفہرست ہے اس بھاری دھات کا پینٹ میں وسیع پیمانے پر استعمال، جو سرکاری پابندی کے باوجود جاری ہے۔ دوسری جانب ہلدی جیسے بنیادی مسالے میں رنگت اور معیار بہتر دکھانے کے لیے بھی اس کا بطور ملاوٹ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ واقعات کا الزام غیر رسمی بیٹری ری سائیکلنگ فیکٹریوں پر لگایا جاتا ہے، جو بڑھتی ہوئی طلب کے جواب میں ملک بھر میں پھیل چکی ہیں۔بھارت: ’پراسرار مرض کا تعلق نِکل اور سیسے سے‘
جن بچوں میں سیسے کی خطرناک سطح پائی جاتی ہیں، ان میں ذہانت اور علمی صلاحیت کی کمی کے ساتھ ساتھ خون کی کمی، نشوونما میں رکاوٹ اور تاحیات اعصابی امراض کا خطرہ ہوتا ہے۔ اختر کے خاندان کے گاؤں میں واقع فیکٹری کمیونٹی کی مسلسل شکایات کے بعد بند ہو گئی لیکن ماحولیاتی واچ ڈاگ ''پیور ارتھ‘‘ کا خیال ہے کہ ملک بھر میں ایسی 265 جگہوں پر اب بھی ایسا ہی کام ہو رہا ہے۔
پیور ارتھ سے وابستہ میتالی داس نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''وہ پرانی بیٹریوں کو توڑتے ہیں، لیڈ نکالتے ہیں اور اسے پگھلا کر نئی بیٹریاں بناتے ہیں۔ یہ سب کھلے آسمان تلے ہوتا ہے۔ اس عمل سے نکلنے والا زہریلا دھواں اور تیزابی پانی ہوا، مٹی اور پانی کو آلودہ کرتا ہے۔‘‘
فلباریہ گاؤں میں تباہی
دارالحکومت ڈھاکہ سے چند گھنٹوں کی دوری پر واقع گاؤں فلباریہ میں ایک چینی کمپنی کی ملکیت والی بیٹری ری سائیکلنگ فیکٹری مکمل طور پر کام کر رہی ہے۔
ایک طرف سرسبز کھیت ہیں اور دوسری طرف ایک پائپ سے گندا پانی ایک کھارے تالاب میں بہہ رہا ہے، جس کے ارد گرد مردہ زمین نارنجی کیچڑ سے اٹی پڑی ہے۔چونتیس سالہ مقامی رہائشی اور انجینئر رقیب حسن کا کہنا ہے، ''بچپن میں میں اپنے والد کے لیے کھیتوں میں کھانا لے جاتا تھا۔ منظر شاندار تھا، ہر طرف ہریالی اور پانی صاف تھا۔ اب دیکھیں یہ کیا ہو گیا۔
یہ ہمیشہ کے لیے مردہ ہو چکا، انہوں نے ہمارا گاؤں مار دیا۔‘‘حسن نے فیکٹری کی آلودگی کے خلاف شکایت کی، جس پر ایک جج نے اسے غیر قانونی قرار دے کر بجلی منقطع کرنے کا حکم دیا لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو الٹ دیا۔
چین میں سیسے کے باعث آلودگی، سو سے زائد دیہاتی متاثر
حسن کا کہنا تھا، ''فیکٹری نے مقامی حکام کو خرید لیا۔
ہمارا ملک غریب ہے، یہاں بہت سے لوگ کرپٹ ہیں۔‘‘ نہ تو کمپنی نے اور نہ ہی ڈھاکہ میں چینی سفارت خانے نے اس فیکٹری کے کام پر تبصرہ کرنےکی درخواست کا کوئی جواب دیا ہے۔بنگلہ دیش کی ماحولیاتی وزیرہ سیدہ رضوانہ حسن نے بھی اس کیس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ ابھی عدالت میں ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ''ہم باقاعدگی سے برقی بیٹریوں کی غیر قانونی پیداوار اور ری سائیکلنگ کے خلاف آپریشن کرتے ہیں لیکن اس مسئلے کے پھیلاؤ کے مقابلے میں یہ کوششیں ناکافی ہیں۔
‘‘رِکشہ الیکٹریفیکیشن کا تاریک پہلو
غیر رسمی بیٹری ری سائیکلنگ بنگلہ دیش میں ایک تیزی سے بڑھتا ہوا کاروبار ہے، جو بڑی حد تک رکشوں کی بڑے پیمانے پر الیکٹریفیکیشن سے چل رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی سڑکوں پر 40 لاکھ سے زائد رِکشے موجود ہیں اور حکام کا اندازہ ہے کہ ان سب کو الیکٹرک موٹرز اور بیٹریوں سے لیس کرنے کی مارکیٹ تقریباً 870 ملین ڈالر کی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال سے وابستہ مایا وینڈیننٹ کہتی ہیں، ''یہ الیکٹرک ہونے کا منفی پہلو ہے۔‘‘ وہ اس صنعت کو سخت ضابطوں اور ٹیکس مراعات کے ذریعے ماحول دوست بنانے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ''زیادہ تر لوگ خطرات سے بے خبر ہیں اور اس کے صحت عامہ پر اثرات قومی معیشت کو 6.9 فیصد تک متاثر کر سکتے ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش کے وزارت صحت کے محمد انور سادات نے خبردار کیا کہ ملک اس مسئلے کے پھیلاؤ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ انہوں نے بتایا، ''اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو اگلے دو برسوں میں متاثرہ افراد کی تعداد تین سے چار گنا بڑھ جائے گی۔‘‘
ا ا / ک م (اے ایف پی)