حکومت اور اداروں کی غفلت یا پھر این او سیز جاری کرنے والے مجرم۔ نشیبی علاقوں، نالوں میں رہائش پذیر افراد دہری اذیت کا شکار ہو کر رہ گئے

بدھ 9 اپریل 2025 17:00

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اپریل2025ء) حکومت اور اداروں کی غفلت یا پھر این او سیز جاری کرنے والے مجرم۔ نشیبی علاقوں، نالوں میں رہائش پذیر افراد دہری اذیت کا شکار ہو کر رہ گئے۔ اپر گوجرہ کے رہائشی معمولی بارش کے بعد گھروں سے باہر نکلنے سے بھی محروم۔ تفصیلات کے مطابق زلزلہ 2005 کے بعد ایک تسلسل سے بدستور دریا کناروں، نشیبی علاقوں، نالوں کسیوں میں آسمان سے باتیں کرتی عمارات کی تعمیرات دھڑلے سے جاری ہے جبکہ اندرون شہر گنجان آباد رہائشی علاقوں میں بھی یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے لیکن دارلحکومت آزاد جموں و کشمیر کا سب سے زیادہ گنجان آباد رہائشی علاقہ اپر گوجرہ سب پر بازی لے جا چکا ہے۔

ویسٹرن بائی پاس کی تعمیر کے بعد اس کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف ان گنت غیر قانونی تعمیرات نے سابق اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کا پول عیاں کر رکھا ہے۔

(جاری ہے)

اس وقت دارالحکومت کے تقریباً 16 نالوں سمیت اپر گوجرہ اور ایبٹ آباد روڈ کے درمیان لا تعداد غیر قانونی تعمیرات جن کو باقاعدہ متعلقہ اداروں کی جانب سے تعمیر کے لیے این او سی جاری کی گئی اور ان علاقوں میں نالوں کے اندر سڑکوں کی تعمیر سیوریج لائن کی تعمیر دیگر کام سرکاری اور حکومتی سطح پر کروائے گئے۔

یہ این او سیز کیسے دیں گئیں اور یہ کام کیسے کروائے گئے یہ تو ایک الگ ہی کہانی ہے مگر اس وقت اپر گوجرہ میں رہنے والے وہ تمام لوگ جنہوں نے قانون اور اداروں کی مبینہ ملی بھگت سے یہاں پر کروڑوں روپے سے اراضیات خرید کر بڑی بڑی عمارتیں تو تعمیر کر لیں مگر اب معمولی بارش کے بعد گھروں سے نکلنے سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ خاص کر معمر افراد، چھوٹے بچے اور خواتین معمولی بارش کے بعد گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔

کئی ایک گھروں میں ہر سال موسمِ برسات سمیت جب بھی بارش ہوتی ہے گندہ پانی، مٹی، ملبہ گندگی، غلاظت گھروں کے اندر گھس جاتا ہے، جس سے مکینوں کو لاکھوں روپے کے نقصانات کو برداشت کرنا پڑتا ہے مگر اداروں اور حکومت کی جانب سے میں ناں مانوں کی رٹ آج بھی پرنٹ و سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔ گزشتہ روز اپر گوجرہ میں رہنے والے اصل مالکان جنہوں نے اپنی زندگیاں اسی جگہ پر گزار رکھی ہیں اور گزار رہے ہیں کا کہنا تھا کہ ان نالوں کی اور نشیبی علاقوں جو کہ ہماری ذاتی ملکیت بھی تھے کو فروخت کرنا ہمارا قانونی حق تھا مگر ان میں کی جانے والی تعمیرات کی اجازت دینا حکومت اور اداروں کا کام تھا۔

انہوں نے کس قانون کے مطابق یہاں پر تعمیرات کی اجازت دی اور بعد ازاں ان لوگوں کو وہ سہولیات فراہم کیوں نہ کی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ نالہ گوجرہ سمیت نالہ جلھیاری، نالہ شوکت لائن و دیگر نالے جو اثج ان رہائشی علاقوں میں سڑکوں کی صورت موجود ہیں۔ اس کے ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے ریاستی خزانے کو بھاری نقصانات سے دوچار کرنے سمیت ریاستی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے عناصر کو بے نقاب کرنے کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے اور ایسے عناصر کو نشان عبرت بنایا جائے۔