اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 اپریل 2025ء) میری امی لاہور کی ایک مشہور یونیورسٹی کے بارے میں کہتی تھیں کہ اس کے برآمدوں سے یونہی گزرنے والے بھی عالم فاضل ہو جاتے تھے۔ ان کی بے حد خواہش تھی کہ ان کے بچوں میں سے کوئی ایک اس جامعہ سے ضرور تعلیم حاصل کرے۔ برسوں بعد ان کی خواہش پوری ہوئی تو ہمیں پتہ چلا کہ وہ یونیورسٹی اب اپنے لیکچر ہالز میں بیٹھنے والے طلبہ تک کو بھی بہتر انسان بنانے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔
شاید کبھی اس یونیورسٹی کا ایک شاندار ماضی رہا ہو۔ موجودہ دور میں وہ اور اس جیسی کئی دیگر جامعات کاروباری ادارے بن چکی ہیں۔ وہ طلبہ کی فکری تربیت کرنے کے بجائے انہیں صارف سمجھتے ہوئے بہترین 'سروس‘ فراہم کرنے پر زور دیتی ہیں، جس کے نتیجے میں ان کا علمی وقار کہیں کھو گیا ہے اور بس مارکیٹ ویلیو باقی رہ گئی ہے۔(جاری ہے)
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم نوجوانوں کی ایک اہم ضرورت ہے۔
اچھی جامعہ سے اچھی ڈگری کے بغیر نہ تو اچھی نوکری ملتی ہے اور نہ ہی کوئی اچھا رشتہ۔ طلبا و طالبات کی اس ضرورت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یونیورسٹیاں اپنے شعبہ جات کے لیے بین الاقوامی سطح پر بہتر درجہ بندی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جس شعبے کی جتنی بہتر رینکنگ ہوگی، اتنے ہی زیادہ طلبہ اس میں داخلے کے خواہش مند ہوں گے، اور وہ جامعہ اتنی ہی زیادہ فیس وصول کر سکے گی۔پاکستانی یونیورسٹیاں اس حوالے سے اپنی درجہ بندی کو بہتر بنانے کے لیے جو کچھ کر سکتی ہیں، کرتی ہیں، مثلاﹰ بہترین فیکلٹی لانا، انہیں زیادہ سے زیادہ تحقیق پر آمادہ کرنا، بین الاقوامی طلبہ اور اساتذہ کو مدعو کرنا، اور اپنی مارکیٹ ویلیو کو مزید بہتر بنانا۔ اس قدر دباؤ میں فیکلٹی اور طلبہ اپنی توانائیاں صرف انہی سرگرمیوں پر مرکوز رکھتے ہیں، جن سے متعلقہ یونیورسٹی میں ان کی جگہ برقرار رہ سکے۔
ایسے میں فکری تربیت کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے۔طلبہ ہر سمسٹر میں کم از کم دو بار اساتذہ کے بارے میں اپنی فیڈبیک دیتے ہیں۔ اگر یہ فیڈ بیک مسلسل بری رہے، تو اساتذہ کو نوٹس جاری کیا جا سکتا ہے اور ان کی نوکریاں بھی ختم ہو سکتی ہیں، چاہے وہ علمی اور تحقیقی لحاظ سے کتنا ہی قابل کیوں نہ ہوں۔ حالانکہ کئی تحقیقی مطالعات یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ طلبہ کی فیڈبیک اکثر متعصبانہ اور ذاتی پسند ناپسند پر مبنی ہوتی ہے اور یہ تعلیمی معیار کی پیمائش کا کوئی درست پیمانہ نہیں۔
لیکن پاکستانی جامعات اسی فیڈ بیک کی مدد سے اساتذہ کی کارکردگی کو پرکھتی ہیں۔اس کے علاوہ بھی شعبہ جات کے سربراہان طلبہ سے وقتاً فوقتاً اساتذہ کے بارے میں فیڈبیک لیتے رہتے ہیں۔ پھر اساتذہ کو کبھی صاف تو کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں طلبہ کی شکایات دور کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ یہ معاملہ صرف پاکستانی جامعات تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کی بہت سی یونیورسٹیوں میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
کسی کورس میں زیادہ طلبہ فیل ہو جائیں، تو ان کے بجائے استاد سے رپورٹ لی جاتی ہے۔ بعض جگہوں پر تو اساتذہ کو پہلے ہی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ طلبہ کو فیل نہ کریں۔اساتذہ کو اپنی نوکری بچانے کے لیے مجبوراً طلبہ کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ وہ نہ انہیں ڈانٹ سکتے ہیں، نہ ان سے کام لے سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں زیادہ پڑھنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
طلبہ فوراً ان کی شکایت لے کر شعبہ جاتی سربراہان کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور پھر اساتذہ کی شامت آ جاتی ہے۔جامعات اپنی پالیسیاں بھی طلبہ کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانے کے لیے بناتی ہیں۔ آج کل کے طالب علم ماضی کے طلبہ کی طرح کلاس روم میں دیر سے داخل ہونے پر ڈرتے نہیں، بلکہ پورے اعتماد سے استاد کو سلام کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔
اگر استاد انہیں وہیں روک کر باز پرس کرے، تو ایسے طلبہ لیکچر کے بعد ڈین کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔کوئی طالب علم کسی بھی وجہ سے امتحان نہ دے سکے، تو اسے کچھ فیس کے عوض 'ری ٹیک‘ امتحان دینے کی اجازت مل جاتی ہے۔ اساتذہ کو دوبارہ سے پیپر بنانے اور جوابی کاپی چیک کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ کوئی طالب علم کوئی تحقیقی مقالہ مکمل نہ کر سکتا ہو، تو اسے دو سے تین کورسز پڑھنے کی اجازت مل جاتی ہے۔
وہ ان کورسز کی فیس دے کر اپنی ڈگری کے اجرا کے تقاضے پورا کر لیتے ہیں۔ یوں بغیر پریشان ہوئے، ان 'گاہکوں‘ کو بھاری بھر کم فیس کے عوض ایک نامور ادارے کی ڈگری مل جاتی ہے۔جو طلبہ مہنگے ڈگری پروگراموں میں داخلہ لینے سے محروم رہ جائیں، ان کے لیے کم لاگت والے قلیل المدتی کورسز متعارف کرائے جاتے ہیں۔ ان کورسز سے ان طلبہ کو جامعہ کا نام مل جاتا ہے اور جامعہ کو اضافی آمدن حاصل ہو جاتی ہے۔
تعلیمی ادارے جب طلبہ کو محض 'کسٹمر‘ سمجھنے لگیں، تو نہ تعلیم باقی رہتی ہے، نہ تربیت اور نہ ہی کوئی فکری میراث جنم لیتی ہے۔ ایسے ماحول میں استاد کا کردار رہنما سے کم ہوتے ہوتے سہولت کار تک محدود ہو جاتا ہے۔ انہیں اپنے' گاہک‘ کو خوش رکھنے کی کوشش میں اپنی علمی خودی، تحقیقی آزادی اور تدریسی دیانت تک پرسمجھوتے کرنا پڑ جاتے ہیں۔
افسوس کہ جن جامعات نے کبھی علم و شعور کی شمعیں روشن کی تھیں، وہ آج فیسوں، ریٹنگز اور طلبہ کی 'اطمینان بخش رائے‘ کے گرد گھومتی کاروباری مشینیں بن چکی ہیں۔ یہ نظام بظاہر سب کو فائدہ دیتا ہے۔ یعنی جامعہ کے لیے آمدنی، طلبہ کے لیے ڈگریاں، اور پالیسی سازوں کے لیے اعداد و شمار۔ لیکن درحقیقت یہ سب کچھ ہم سب سے ایک ایسا تعلیمی مستقبل چھینتا جا رہا ہے، جو تحقیق، تنقید اور فکری آزادی اور غیر جانب داری پر قائم ہونا چاہیے تھا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔