Live Updates

اگر ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل ہوا تو پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ یہ آخری پروگرام ہوگا، وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب

بدھ 30 اپریل 2025 18:10

اگر ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل ہوا تو پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 اپریل2025ء) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اگر پاکستان نے سنجیدہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل درآمد کیا تو یہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ملک کا آخری پروگرام ہوگا۔ کراچی میں ایف پی سی سی آئی اور بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں معاشی استحکام آ چکا ہے اور اب وقت ہے کہ اس استحکام کو دیرپا بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہو چکے ہیں، جاری کھاتے میں فاضل موجود ہے اور مہنگائی کی شرح میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ ان کے مطابق پالیسی ریٹ میں 1000 بیسز پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے، جو صنعتوں کی فنانسنگ لاگت میں کمی کا باعث بنی ہے۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم اور خود کفیل بنانے کے لیے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ضروری ہے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ 24 کروڑ کی آبادی کے لیے صرف 30 سے 40 لاکھ ٹیکس دہندگان کافی نہیں، ہر شعبے کو معیشت میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ حکومت ٹیکس اتھارٹی میں اصلاحات لا رہی ہے، جہاں انسانی مداخلت کو کم سے کم کرنے کے لیے ڈیجیٹل نظام متعارف کرایا جا رہا ہے تاکہ ٹیکس دہندگان کو ہراسانی سے بچایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس ریٹرن فارم کو آسان بنایا جا رہا ہے، جسے 9 سے 10 خانوں پر مشتمل کر دیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ کابینہ نے جنوری میں منظور کیا تھا کہ ٹیکس پالیسی آفس کو ایف بی آر سے الگ کر کے براہ راست وزارت خزانہ کے ماتحت کر دیا جائے گا۔ اب ایف بی آر صرف ٹیکس کلیکشن پر فوکس کرے گا جبکہ پالیسی سازی ٹیکس پالیسی آفس کی ذمہ داری ہوگی۔ اس اقدام کا مقصد پالیسی میں تسلسل اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت نے 24 سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے اور اس عمل کو تیز کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کا دوبارہ آغاز ہونے کی تصدیق کی اور بتایا کہ کچھ وزارتوں کو ضم یا ختم کیا جائے گا تاکہ حکومتی اخراجات میں کمی آئے۔انہوں نے کہا کہ معدنیات اور آئی ٹی دو ایسے شعبے ہیں جو پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔ ریکوڈک منصوبے کا فنانشل کلوز مکمل ہو چکا ہے اور دنیا میں تانبے کی بڑھتی ہوئی طلب میں پاکستان اہم کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے اس بار جنوری کے اختتام پر ہی چیمبرز اور بزنس کمیونٹی سے بجٹ تجاویز طلب کر لی تھیں اور ان پر آزاد تجزیہ کاروں کی مدد سے تفصیل سے غور کیا گیا۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ان تجاویز کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ آئی ٹی ایکسپورٹس کو 8 سے 10 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے جبکہ گاڑیوں اور دودھ کی برآمد کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔

آج ہی گاڑیوں کی ایک کھیپ سعودی عرب کو بھیجی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کا یہ پروگرام پاکستان کا آخری ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات، ٹیکس اصلاحات، ادارہ جاتی تبدیلیاں اور نجکاری جیسے اقدامات پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کاروبار دوست پالیسیوں کے ذریعے نجی شعبے کو معیشت کا انجن بنانا چاہتی ہے۔

بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا سے کل ہی پاکستان پہنچا، ایک ہفتے میں 70 سے زائد ملاقاتیں کی گئیں، ملٹی لٹرل پارٹنرز عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندوں کے علاوہ دوست ملکوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں ہوئیں، امریکا کے سینئر انتظامی عہدیداران کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں، چین، برطانیہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشی استحکام کی مثال نہیں ملتی، زرمبادلہ کا استحکام آیا ہے، بہت عرصے بعد جاری کھاتا پورے سال کا فاضل ہوگا، فسکل سائیڈ پر بھی توازن ا ٓچکا ہے، فسکل سرپلس میں صوبوں نے بھی کردار ادا کیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ افراط زر میں کمی بھی کامیابی کی کہانی ہے، پالیسی ریٹ میں ایک ہزار بیسز پوائنٹس کمی آ چکی، امریکا میں ہونے والی ملاقاتوں میں معاشی استحکام پر بات ہوئی جس میں ہر کسی نے ہماری کارکردگی کو سراہا۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ 8/9 سال میں معیشت کو اتار چڑھائو کا سامنا کرنا پڑا، کوئی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے 28 ویں پروگرام میں ہیں، سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ پر توجہ نہیں رہی، ہم درآمدات اور کھپت پر مبنی نمو کی طرف جاتے ہیں، زرمبادلہ ذخائر پر دبائو پڑتا ہے اور پھر قرض کی طرف جانا پڑتا ہے، وزیر اعظم سمیت ہم سب کا عزم ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب اس سال 10.6 فیصد اور پھر 13 فیصد پر لایا جائے گا، ٹیکس اتھارٹیز کو ٹرانسفارم کررہے ہیں، ٹیکس گزار اتھارٹیز کے ساتھ ڈیل نہیں کرنا چاہتے، یہ بات بھی دیرپا نہیں ہوسکتی کیونکہ ہمارے ملک کی آبادی کا حجم زیادہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس گزاروں کا ٹیکس اتھارٹیز پر اعتماد بڑھانا اور پراسیس کو آسان بنانا ہوگا، اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹلایزہشن کی کوشش ہے، انسانی مداخلت کو کم سے کم کرنا چاہتے ہیں، ڈیٹا کے ذریعے ٹیکس بیس کو بڑھانا چاہتے ہیں، ٹیکس گزاروں کے ساتھ ڈیٹا کی بنیاد پر بات کرنا چاہتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس گزاروں کی ہراسانی کو کم کریں گے، ٹیکس نظام کو آسان بنایا جارہا ہے، استثنی والی جی ڈی پی کا تصور ہی نہیں ہوسکتا، جس شعبے کا بھی معیشت میں حصہ ہے اسے ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا، جی ڈی پی کے ہر شعبے کو ٹیکس دینا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقہ کے لیے ٹیکس کو آسان بنایا جائے گا، 70/80 فیصد تنخواہ دار کا ٹیکس ایٹ سورس کٹ جاتا ہے، اس کے باوجود انہیں ٹیکس فارم بھرنے پڑتے ہیں اور ٹیکس وکیلوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے، تنخواہ دار طبقہ کے لیے کوشش ہے کہ 9/10 فیلڈز پر مشتمل فارم آسانی سے بھریں، تنخواہ دار گھر بیٹھ کر اپنے ریٹرنز بھر سکیں گے، توانائی ٹیرف میں کمی اچھا اقدام ہے جولائی میں مزید کمی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ فنانسنگ کی لاگت انڈسٹری کا مسئلہ رہا، شرح سود میں کمی سے یہ مسئلہ کم ہوا ہے، توانائی کو سستا کرنے کے لیے درست سمت میں گامزن ہیں، انڈسٹری کے مسائل حل کریں گے، اس مرتبہ بجٹ تجاویز جنوری کے اختتام پر ہی ایسوسی ایشن چیمبرز سے طلب کرلی تھیں۔
Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات