امریکہ میں پانچ فیصد کینسر کیسز کا سبب شعاعوں والے طبی ٹیسٹ

DW ڈی ڈبلیو اتوار 11 مئی 2025 16:00

امریکہ میں پانچ فیصد کینسر کیسز کا سبب شعاعوں والے طبی ٹیسٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 مئی 2025ء) دنیا بھر میں طرح طرح کی بیماریوں کے مریض اپنے ایکسرے، سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی ٹیسٹ کراتے ہیں۔ انہیں مجموعی طور شعاعوں کے ذریعے کی جانے والی میڈیکل امیجنگ کہا جاتا ہے۔ سی ٹی (CT) اسکین یا کمپیوٹڈ ٹوموگرافی کو مختصراﹰ کیٹ (CAT) بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کسی مریض کے جسم کے کسی بھی حصے کا ایک تفصیلی سہ جہتی عکس تیار کیا جاتا ہے۔

یہ تھری ڈی میڈیکل امیج ایکس نامی وہ شعاعیں استعمال کرتے ہوئے تیار کیا جاتا ہے، جنہیں ایکس ریز کہتے ہیں۔

لبلبے کے کینسر کا علاج شاید بہتر طور پر ممکن ہو

سی ٹی اسکین ایک میڈیکل ٹیسٹ کے طور پر کسی طبی مسئلے کا پتہ چلانے یا ممکنہ بیماری کی تشخیص کے لیے جسم کے اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے اعضاء کا کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ میں مکمل کیے گئے ایک تازہ طبی مطالعے کے نتائج کے مطابق ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ میڈیکل امیجنگ کا یہ طریقہ کار انسانوں میں سرطان کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

کروڑوں امریکی مریضوں کا ڈیٹا

محققین تسلیم کرتے ہیں کہ سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی جیسے ٹیسٹ بہت فائدے مند تو ہوتے ہیں تاہم بار بار ایسے ٹیسٹ کرانا سرطان کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ اس ریسرچ اسٹڈی میں امریکہ میں اپنا سی ٹی اسکین کرانے والے 61.5 ملین مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔ ایک ماڈل کے طور پر اس تحقیق میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی کہ ان امریکی مریضوں میں سرطان کا شکار ہو جانے کا خطرہ کتنا تھا۔

اس ریسرچ ماڈل میں دیکھا گیا کہ ان 61.5 ملین امریکی مریضوں میں سے جتنے بھی سرطان کا شکار ہوئے، ان میں سے سرطان کے تقریباﹰ ایک لاکھ تین ہزار کیسز سی ٹی اسکین کا نتیجہ ہو سکتے تھے۔ اس اسٹڈی کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ ایسے مریضوں نے اپنی پوری زندگی میں تقریباﹰ کتنی مرتبہ شعاعوں کے ذریعے اپنی میڈیکل امیجنگ کرائی تھی۔

کینسر، ذیابیطس اور پارکنسنز کا علاج جلد ہی، اسٹیم سیلزکا کلینیکل ٹرائل

اس تحقیق میں ماہرین نے ڈیٹا کی مدد سے جو ماڈل تیار کیا، اس کے مطابق امریکہ میں مختلف اقسام کے کینسر کے نئے سالانہ کیسز میں سے قریب پانچ فیصد کی وجہ میڈیکل امیجنگ ریڈی ایشن ہو سکتی ہے۔

اس لیے اس ریسرچ میں کہا گیا کہ اسکیننگ کے باعث کینسر کے ممکنہ خطرے کو کم سے کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے میڈیکل ٹیسٹ صرف اسی وقت کرائے جائیں جب وہ قطعی لازمی ہوں۔

سی ٹی اسکین کیا کیسے جاتا ہے؟

سی ٹی اسکینر ایک بڑی ٹیوب کی طرح کی مشین ہوتا ہے۔ مریض کو ایک میز نما تختے پر لٹا کر اس ٹیوب میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسکینر میں لگے ہوئے ایکسرے آلات مریض کے جسم کے متعلقہ حصے کی سینکڑوں تصویریں بناتے ہیں اور یوں ایک تھری ڈی امیج بن جاتا ہے۔

ایم آر آئی ٹیسٹ سی ٹی اسکین سے مختلف ہوتا ہے، لیکن وہ بھی ایسی ہی ایک ٹیوب یا چھوٹی سرنگ نما مشین کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ ایم آر آئی ٹیسٹ کا پورا نام میگنیٹک ریزونینس امیجنگ ہے اور اس میں ایکس ریز کے بجائے جسم سے طاقت ور مقناطیسوں کے ذریعے ریڈیائی لہریں گزار کر امیج تیار کیا جاتا ہے۔

ان دونوں طریقوں سے انسانی جسم کے کسی بھی حصے کی بہت ہی تفصیلی تھری ڈی تصویریوں بنائی جاتی ہیں۔

لیکن مسئلہ وہ شعاعیں ہیں، جن کا بار بار یا بہت زیادہ سامنا کرنا پرخطر ہوتا ہے۔

سرطان کا پھیلاؤ روکنے میں ممکنہ مدد گار، ایک خاص پھپھوندی

امریکہ میں کینسر اور میڈیکل امیجنگ کے بارے میں ریسرچ کرنے والی اس ٹیم کی ایک نمایاں رکن ریبیکا اسمتھ بائنڈمین بھی تھیں۔ وہ سان فرانسسکو میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ریڈیالوجی کے شعبے سے منسلک ہیں۔

انہوں نے اس ریسرچ کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''سی ٹی یا کمپیوٹڈ ٹوموگرافی انسانی جانیں بچا سکتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات کو اکثر نظر انداز بھی کر دیا جاتا ہے۔‘‘

ایکس ریز نقصان دہ کیوں ہیں؟

ایکس ریز انسانی آنکھ سے نظر آنے والی روشنی کے مقابلے میں زیادہ توانائی والی شعاعیں ہوتی ہیں۔

یہ زیادہ فریکوئنسی والی ایسی شعاعیں ہوتی ہیں، جو انسانی جسم میں داخل ہو کر ایٹموں کو آئیونائز کر دیتی ہیں۔

یہ صحت کے لیے نقصان دہ اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ مالیکیولز کی سطح پر یہ پٹھوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور کینسر سمیت کئی طرح کی بیماریوں اور طبی شکایات کی وجہ بنتی ہیں۔

لیکن دوسری طرف یہی شعاعیں کسی مریض کے جسم کی اندرونی حالت کا درست پتا چلانے میں طبی ماہرین کی بہت مدد بھی کرتی ہیں۔

پچاس سال سے کم عمر کے افراد میں بڑی آنت کے کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح

ایکس ریز کی وجہ سے سی ٹی اسکین کو ماہرین نے فائدہ مند کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر نقصان دہ اس لیے قرار دیا ہے کہ ماضی کی نسبت آج کل بیماریوں کی تشخیض کے لیے سی ٹی اسکین کا استعمال بہت زیادہ ہو چکا ہے۔

سی ٹی اسکین کرانے کی شرح تیس فیصد زیادہ

امریکہ میں بیماریوں کی تشخیص کے لیے سی ٹی اسکین اب اتنا زیادہ استعمال ہوتا ہے کہ 2007 کے بعد سے اب تک اس کی شرح میں 30 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ عمر والے مریضوں میں اس میڈیکل امیجنگ کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ خاص طور پر 60 سے لے کر 69 برس تک کی عمر کے انسانوں میں اس کی شرح سب سے زیادہ دیکھی گئی ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن چھوٹے بچوں کا سی ٹی اسکین ان کی پہلی سالگرہ سے بھی پہلے کرایا گیا، ان میں دوسری عمروں کے افراد کے مقابلے میں کینسر کے مریض بن جانے کا خطرہ دس گنا زیادہ تھا۔

گلائفوسیٹ انسانوں میں سرطان کا سبب؟ استعمال کہاں ممنوع، کہاں محدود

اسمتھ بائنڈمین کے مطابق، ''ہمارے اندازے یہ ہیں کہ سی ٹی اسکین بھی اسی طرح ایک طبی خطرہ ہے، جیسے زیادہ شراب نوشی یا موٹاپا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسکیننگ میں کمی سے بھی انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ غیر ضروری یا ضرورت سے زیادہ اسکیننگ دونوں غلط اور خطرناک ہیں۔

دیگر ماہرین کی رائے

کئی طبی ماہرین کو یقین ہے کہ سی ٹی اسکین کا بےجا استعمال مریضوں کی صحت کے لیے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں ریڈیالوجیکل سیفٹی کے ماہر پردیپ دیب کا امریکہ میں کی گئی تازہ تحقیق سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زیادہ توانائی والی شعاعیں سرطان کا باعث بنتی ہیں۔

‘‘

ان کے بقول ایکس ریز جیسی مالیکیولز کی آئیونائزنگ کرنے والی شعاعیں ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور زیادہ اسکیننگ سے یہ نقصان بہت سنگین بھی ہو سکتا ہے۔

چھاتی کے سرطان کی تشخیص میں مصنوعی ذہانت معاون

پردیپ دیب نے کہا، ''لازمی نہیں کہ ہر وہ انسان جس نے ایسی شعاعوں کا سامنا کیا ہو، اسے کینسر ہو جائے۔ سی ٹی اسکین بیماریوں کی تشخیص کا ایک انتہائی مؤثر طریقہ ہے، جو آئندہ بھی استعمال ہوتا رہے گا۔ لیکن اس کا غیر ضروری استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘

ادارت: مقبول ملک