سائنس اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری چین کی ترقی کا نایک طاقتور انجن ہے، چینی میڈ یا

جمعرات 12 جون 2025 21:12

بیجنگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جون2025ء)چینی رہنما شی جن پھنگ کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی ملک کا ہتھیار ہے، جس پر ملک کی طاقت، اداروں کی کامیابی، اور عوام کی خوشحالی کا انحصار ہوتا ہے تاہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں چین کو امریکہ اور مغرب کی جانب سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے چین کو احساس ہوا ہے کہ اسے آزاد انہ جدت طرازی پر انحصار کرنا چاہیے۔

لہٰذا شی جن پھنگ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری نکی حکمت عملی پیش کی اور اسے "ملک کی مجموعی ترقی نکے لئے بنیادی ستون" قرار دیا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں ’’دوسروں کی پیروی کرنے‘‘سے لے کر بہت سے شعبوں میں ’’قائدانہ حیثیت‘‘تک ، چین ناپنی خصوصیات کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہے۔

(جاری ہے)

،حکمت عملی کا قیام کیا گیا اور قومی ’’جدت طرازی‘‘کے نظام کی تعمیر نو کی گئی۔

چین بنیادی تحقیق میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ جاری رکھے ہوئے ہی؛ ٹیلنٹ پالیسیوں کے ایک سلسلے کے نفاذ کے ذریعے، چین نے سائنسی اور تکنیکی ترقی کے لیے بڑے پیمانے پر ایک اعلی معیار، اور مناسب ڈھانچے کا ٹیلنٹ پول تشکیل دیا ہے، چین میں آر اینڈ ڈی اہلکاروں کی کل تعداد دنیا میں پہلے نمبر پر ہی؛ نسائنسی تحقیق کی فنڈنگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو نجدت طرازی کے لئے ایک ٹھوس مادی بنیاد فراہم کرتا ہے، 2012 سے 2024 تک ، چین کی آر اینڈ ڈی سرمایہ کاری 1.03 ٹریلین یوآن سے بڑھ کر 3.6 ٹریلین یوآن تک پہنچی جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

دوسرا ، تکنیکی ناکہ بندی کو توڑنے کے لئے ’’نیا قومی نظام‘‘قائم ہوا ہے، حکومت قومی وسائل کی تقسیم کی قیادت کرتی ہے، لیبارٹریوں، سائنسی تحقیقی اداروں اور اعلیٰ جامعات جیسی اسٹریٹجک قوتوں کو مربوط کیا جاتا ہے، پھر انٹرپرائز فورسز اور مارکیٹ میکانزم متعارف کروایا جاتا ہے ،یوں صنعت، تعلیم، تحقیق اور ایپلی کیشن کا گہرا انضمام کیا گیا ہے۔

اس نظام کی مدد سے نچین نے کئی اہم شعبوں میں تکنیکی ناکہ بندی کو کامیابی سے توڑ دیا ہے۔تیسرا نئے معیار کی پیداواری قوتوں کو بااختیار بنایا گیا ہے، سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کو صنعتی برتری میں تبدیل کیا گیا۔ چین نے ’’بنیادی تحقیقات ،مشکل کلیدی تکنیکی نحل اور صنعتی تبدیلی‘‘کا ایک مکمل سلسلہ نتشکیل دیا ہے ، جس سے گلوبل انوویشن انڈیکس میں چین کی درجہ بندی کو 2012 میں 34 ویں سے 2024 میں 11 ویں نمبر نتک پہنچایا گیا۔

شی جن پھنگ کے مطابق بین الاقوامی سائنسی اور تکنیکی تعاون انسانیت کو درپیش عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ "بیڈو سسٹم ن200 سے زیادہ ممالک کے لیے خدمات فراہم کرتا ہے، فاسٹ ٹیلی سکوپ بین الاقوامی برادری کے لئے کھلی ہے، ڈیپ سیک عالمی مصنوعی ذہانت مساوات کو فروغ دیتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔ان اقدامات سے چین کھلے تعاون میں اپنی سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کی صلاحیتوں کو بڑھا رہا ہے اورساتھ ہی نعالمی سائنس اور ٹیکنالوجی گورننس نکے لئے نچینی حل بھی فراہم کرتا رہا ہے۔