افغانستان: خواتین معاشی، سماجی اور سیاسی شعبوں سے خارج

یو این بدھ 18 جون 2025 01:45

افغانستان: خواتین معاشی، سماجی اور سیاسی شعبوں سے خارج

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 جون 2025ء) افغانستان بڑے پیمانے پر صنفی تفاوت کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں صحت، تعلیم، مالیاتی شمولیت اور فیصلہ سازی کے حوالے سے خواتین اور مردوں کی صورتحال میں 76 فیصد فرق پایا جاتاہے۔

اس وقت افغان خواتین فیصلہ سازی اور مواقع تک رسائی کے لیے اپنی مکمل صلاحیتوں کے صرف 17 فیصد سے ہی کام لے رہی ہیں جو کہ خواتین کے لیے عالمگیر اوسط کے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔

تقریباً 80 فیصد نوجوان خواتین کو تعلیم، روزگار اور تربیت کے مواقع سے محروم کر دیا گیا ہے جو کہ مردوں کے مقابلے میں چار گنا بڑی تعداد ہے۔

Tweet URL

صنفی تفاوت کے اعتبار سے یمن دنیا میں پہلے نمبر ہے۔

(جاری ہے)

افرادی قوت میں صنفی فرق کے اعتبار سے بھی افغانستان کے حالات دیگر دنیا کے مقابلے میں کہیں خراب ہیں۔ اگست 2021 میں ملک پر طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہونے کے بعد خواتین کی صرف 24 فیصد تعداد افرادی قوت کا حصہ ہے جبکہ مردوں میں یہ شرح 89 فیصد ہے۔ 2022 کے آخر تک برسرروزگار خواتین کی تعداد میں 25 فیصد تک کمی آئی تھی جبکہ اسی عرصہ میں 7 فیصد مرد بے روزگار ہوئے۔

یہ بات یو این ویمن میں شعبہ امدادی اقدامات کی سربراہ صوفیا کیلٹورپ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے صنفی اشاریہ 2024 کے اجرا پر بتائی۔ یہ اشاریہ اگست 2021 کے بعد افغان خواتین کی بااختیاری اور ملک میں صنفی مساوات کا جامع جائزہ ہے جس میں پائیدار ترقی کے آٹھویں ہدف کی جانب پیش رفت سے متعلق صورتحال سامنے لائی گئی ہے۔

افغان خواتین کی ثابت قدمی

صوفیہ کیلٹورپ کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت میں افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، وقار اور ان کے وجود کو دانستہ اور غیرمعمولی حملوں کا سامنا ہے۔ تاہم، اپنی زندگی پر تقریباً مکمل پابندیوں کے باوجود وہ ثابت قدم ہیں اور آگے بڑھنے کے راستے نکال رہی ہیں۔ یہ خواتین امدادی کارکنوں، صحافیوں اور مقامی سطح پر رہنماؤں کی حیثیت سے بھی کردار ادا کر رہی ہیں لیکن انہیں اپنی راہ میں روزانہ پیش آنے والی رکاوٹوں کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ معاشی، سیاسی اور انسانی بحرانوں نے افغانستان میں لاکھوں گھرانوں کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت کے باعث مزید خواتین افرادی قوت کا حصہ بن رہی ہیں۔ ان میں بیشتر معمولی اجرت پر کام کرنے کو تیار ہوتی ہیں اور زیادہ تر خواتین کو کم اجرت والا، کم محفوظ اور غیررسمی روزگار ہی میسر آتا ہے۔ ملک میں گھریلو کام بھی بڑی حد تک خواتین ہی کے ذمے ہیں جس کی کوئی اجرت نہیں ہوتی۔

فیصلہ سازی میں شرکت کے حوالے سے بھی خواتین کی صورتحال خراب ہے۔ طالبان حکومت کی کابینہ یا صوبائی حکومتوں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر کوئی خاتون تعینات نہیں اور اس طرح ایسے فیصلوں میں خواتین کی آرا بھی شامل نہیں ہوتیں جو ان کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

تین ترجیحی اقدامات

صوفیا کیلٹورپ نے بتایا کہ یو این ویمن طالبان حکام سے بات چیت کر کے افغان خواتین کو تحفظ اور مدد دلانے، انہیں بااختیار بنانے اور خواتین کے زیرقیادت تنظیموں کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

یہ رپورٹ ان کوششوں میں مددگار اور خواتین کے حقوق کو فروغ دینے میں معاون ہو گی۔

یو این ویمن نے اپنے عالمی شراکت داروں سے کہا ہے کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں کی بہتری کے لیے ترجیحی بنیاد پر تین اقدامات اٹھائیں:

  • سب سے پہلے، خواتین کے زیرقیادت سول سوسائٹی کی تنظیموں کو مضبوط بنانے کا عزم کیا جائے جس میں ان کے لیے طویل مدتی اور کثیرالمقاصد مالی وسائل کا انتظام بھی شامل ہو۔

  • اس کے بعد، یہ یقینی بنایا جائے کہ افغانستان کو مدد دینے کے اقدامات میں کم از کم 30 فیصد مالی وسائل صںفی مساوات اور خواتین کے حقوق پر براہ راست خرچ ہوں۔
  • تیسرے قدم کے طور پر، ایسی بات چیت میں افغان خواتین اور لڑکیوں کی بامعنی شمولیت میں سہولت دی جائے جس سے ان کی زندگیوں اور ملک کے مستقبل کو بہتر بنایا جا سکے۔