نوجوان اپنے کردار پر سمجھوتہ نہ کریں، صحت کا نظام آبادی کے دباؤ سے لڑکھڑا گیا ہے

وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا شنگھائی تعاون تنظیم سیمولیشن کانفرنس سے خطاب

Zohaib Mansha ذوہیب منشاء ہفتہ 28 جون 2025 23:33

نوجوان اپنے کردار پر سمجھوتہ نہ کریں، صحت کا نظام آبادی کے دباؤ سے لڑکھڑا ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 جون 2025ء)وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے شنگھائی تعاون تنظیم کی سیمولیشن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد کئی وزارتیں صوبوں کو منتقل ہو چکی ہیں، جس سے صحت کے شعبے کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہیلتھ کیئر سسٹم نہیں بلکہ “سک کیئر سسٹم” ہے، جو صرف بیماری کے بعد علاج پر توجہ دیتا ہے، نہ کہ صحت کی حفاظت پر۔

وزیر صحت کا کہنا تھا کہ ملک کی آبادی ہر سال ایل سلواڈور جتنے ملک کے برابر بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے صحت کا نظام دباؤ کا شکار ہو چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پمز ہسپتال میں ضرورت سے کہیں زیادہ مریض آتے ہیں جبکہ ملک بھر میں اسپتال کینسر کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ 68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیوریج کے پانی کو ٹریٹ کرنے کا کوئی تصور موجود نہیں۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ویژن میں ہی شامل نہیں کہ گندے پانی کی صفائی بھی ضروری ہے۔ وزیر صحت نے کہا کہ ہیلتھ کیئر انسان کی پیدائش سے ہی شروع ہو جاتی ہے، لیکن ہمارے نظام میں اس پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مصطفیٰ کمال نے زور دیا کہ ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو عوام کو بیمار ہونے سے بچائیں، نہ کہ صرف بیماری کے بعد علاج کریں۔ نوجوانوں سے خطاب میں وزیر صحت نے کہا کہ ملک کی 68 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں حقیقت جاننے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے نوجوانوں کو کردار کی مضبوطی کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ لیڈر بننے کے لیے سب سے پہلے کردار کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا قرآن میں بیان کیا گیا واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک لیڈر سب کچھ ہو سکتا ہے، لیکن بدکردار نہیں۔ لیڈر کا کردار ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہوتا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ اپنے کردار پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں، یہی انسان کو طاقتور بناتا ہے۔ وزیر صحت نے اس موقع پر اس بات پر بھی زور دیا کہ ملک کے 2 کروڑ 60 لاکھ بچے ابھی تک بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، جو ایک المیہ ہے اور اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔