اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جون 2025ء) سائنسی جریدے نیو سائنٹسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اسٹار لنک سیٹلائٹس سے لیک ہونے والے ریڈیو سگنلز 'ابتدائی کائنات‘ سے متعلق سائنسدانوں کی تحقیق اور اسے سمجھنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ یہ سیٹلائٹس امریکی ارب پتی ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس کی ملکیت ہیں، جنہیں 'لو ارتھ آربیٹ‘ میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے چھوڑا گیا ہے۔
تاہم ان سے پیدا ہونے والی ریڈیو انٹرفیئرنس اور مسلسل سگنلز کا اخراج ماہرین فلکیات کے لیے ایک طویل عرصے سے تشویش کا باعث ہے۔ یہ ریڈیو سگنلز حساس اور بڑی دوربینوں کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں، جو کائنات میں دور دراز اور مدھم اجسام سے خارج ہونے والی ریڈیو ویوز کے مشاہدے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
(جاری ہے)
کچھ عرصہ قبل اسپیس ایکس نے ماہرین فلکیات کے ساتھ مل کر اس مسئلے کے حل کے لیے کوششیں شروع کی تھیں۔
سیٹلائٹس سے پیدا ہونے والے خلل کو کم کرنے کے لیے ایک نیا نظام متعارف کرایا گیا تھا، جس کے تحت جب یہ سیٹلائٹس بڑی دوربینوں کے اوپر سے گزرتے ہیں تو ان کی انٹرنیٹ ٹرانسمٹنگ بیم کو عارضی طور پر بند کر دیا جاتا ہے۔ تاہم ان کوششوں کے خاطر خواہ نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے۔مسئلہ کتنا سنگین ہے؟
نیو سائنٹسٹ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی پروفیسر اسٹیون ٹِنگے کر رہے ہیں، جو آسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی کے شعبہ ریڈیو فلکیات سے وابستہ ہیں۔
یہ تحقیق ابھی پیئر ریویو کے مرحلے میں ہے اور اس کی اشاعت جلد متوقع ہے۔ ٹیم نے آسٹریلیا میں زیر تعمیر ایک پروٹوٹائپ دوربین کی مدد سے 2000 اسٹار لنک سیٹلائٹس سے خارج ہونے والے ریڈیو سگنلز کا مشاہدہ کر کے ڈیٹا اکٹھا کیا۔رپورٹ کے مطابق ماہرین فلکیات دور دراز سے ریڈیو ویوز خارج کرنے والے اجسام کا مطالعہ کر کے کائنات کی ابتدا سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔
اس دوران وہ مختلف فریکوئنسیز پر ریڈیو امواج کا ڈیٹا جمع کرتے ہیں۔ تاہم اس ڈیٹا کا تقریباً ایک تہائی حصہ اسٹار لنک سیٹلائٹس سے خارج ہونے والے ریڈیو سگنلز کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ مستقبل میں مزید سنگین ہو سکتا ہے کیونکہ مئی 2025 تک لو ارتھ آربیٹ میں آپریشنل اسٹار لنک سیٹلائٹس کی تعداد 7600 ہو چکی تھی۔
اسپیس ایکس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اب تک مجموعی طور پر نو ہزار سیٹلائٹس مدار میں بھیجے جا چکے ہیں، جن میں سے متعدد کو ڈی-آربٹ کر دیا گیا ہے۔ ایلون مسک نے مستقبل میں اس تعداد کو 10 ہزار تک بڑھانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر اسٹیون ٹِنگے کے مطابق اسٹار لنک سیٹلائٹس سے ریڈیو سگنلز کا اخراج اگرچہ غیر ارادی ہے، لیکن یہ سگنلز اتنے طاقتور ہیں کہ ان کا موازنہ کائنات میں ریڈیو ویوز خارج کرنے والے روشن ترین اجسام سے کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ سیٹلائٹس ایسے ہیں، جیسے ان روشن اجسام کو آسمان میں آزادانہ گھومنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہو۔ نتیجتاً، ان سیٹلائٹس کے فلکیاتی تحقیق، خاص طور پر حساس تجربات پر منفی اثرات بہت نمایاں ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے قبل بین الاقوامی سطح پر کیے گئے سروے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ رات کے وقت اسٹار لنک سیٹلائٹس آسمان پر روشن لکیروں کی طرح دکھائی دیتے ہیں، جس سے فلکیات کے شائقین کو اپنی دوربینوں سے مشاہدات میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عالمی سطح پر تنقید کے بعد، اسپیس ایکس نے سیٹلائٹس کی تیاری میں اینٹی ریفلیکٹر کوٹنگ کا استعمال کیا اور ان کی سمتوں میں بھی تبدیلی کی۔بین الاقوامی قوانین کیا ہیں؟
معروف پاکستانی ماہر فلکیات ڈاکٹر سلمان حمید، جو ہیمپشائر کالج میں انٹیگریٹڈ سائنس اینڈ ہیومنیٹیز کے پروفیسر ہیں، نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ عام طور پر فلکیات کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔
تاہم ماہرین فلکیات ستاروں اور کہکشاؤں کی ابتدا سے متعلق بنیادی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ریڈیو ویو لینتھ کا استعمال کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے سیٹلائٹ کمیونیکیشنز فریکوئنسی سپیکٹرم کے اسی حصے میں ہوتے ہیں، جو فلکیاتی تحقیق کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس ٹکراؤ سے بچنے کے لیے انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین (ITU) نے چند فریکوئنسی بینڈز کو صرف فلکیاتی تحقیق کے لیے مختص کیا تھا، جو ایک قابل تحسین اقدام ہے۔
ڈاکٹر سلمان کے مطابق ان قوانین کے باوجود فلکیاتی تحقیق اور سیٹلائٹ سرگرمیوں کے درمیان ٹکراؤ برقرار ہے۔ اسٹار لنک سیٹلائٹس فلکیات کے لیے مخصوص دو فریکوئنسیز پر ریڈیو سگنلز لیک کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے بڑی اور طاقتور دوربینوں کے باوجود محققین کو مطلوبہ ڈیٹا حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اسپیس ایکس اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے اور کمپنی نے ماہرین کو یقین دلایا ہے کہ جلد ہی کوئی مؤثر حل نکالا جائے گا، لیکن محققین صرف خیرسگالی کے اعلانات پر بھروسہ نہیں کر سکتے، کیونکہ مدار میں سیٹلائٹس کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ان کے خیال میں انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین کو عالمی سطح پر فلکیاتی تحقیق اور ماہرین کے ڈیٹا کی حفاظت کے لیے مزید سخت قوانین نافذ کرنے چاہئیں۔
ادارت: امتیاز احمد